اس ہفتے کے جنگ مڈ ویک میگزین میں کراچی کی تاریخ کے حوالے سے ایک دلچسپ مضمون "شہر کی دو سو سالہ تاریخ ملبے سے باہر آرہی ہے” شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون کراچی میونسپل کارپوریشن کی تاریخی عمارت میں شہری میونسپل کونسل کی دستاویزات کی برآمدگی اور ان کو محفوظ کئے جانے کی کوششوں کے بارے میں ہے۔ ان دستاویزات میں نقشے، رجسٹر، خطوط، اور شہری کونسل کی کاروائیوں کی روداد شامل ہے۔ چند دستاویزات قریبا دو سو سال قدیم ہیں۔ ان میں سے ایک دستاویز اس قرار داد کی ہے جس کے ذریعے لالو کھیت کا نام شہریوں نے لیاقت آباد تجویز کیا۔ شہری حکومت کے ریکارڈز میں محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی پیدائش کا اندراج بھی موجود ہے۔ ان ریکارڈز میں قائداعظم کی پیدائش کا ریکارڈ موجود نہیں جس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ شاید جناح جھرک میں پیدا ہوئے تھے اور وزیر مینشین ان کی جائے پیدائش نہیں۔
شہری حکومت نے ان دستاویزات کی دیکھ بھال اور آرکائیوز مرتب کرنے کا جو کام شروع کیا ہے اللہ کرے یہ جاری رہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کافی تاریخی جگہوں کی مرمت کی ہے جیسے جہانگیر کوٹھاری پریڈ، ڈاوّ میڈیکل کالج کے ساتھ ایک ہندو تاجر کی یادگار کی مرمت، اس کے علاوہ شہر میں چند اور تاریخی عمارات کی دیکھ بھال اور حفاظت کی کوشش کی گئی ہے جو گرچہ بہت اچھی طرح نہیں کی گئی مگر لائق تحسین ہے۔
بہت اہم نوعیت کا کام ہے اور امید ہے کہ یہ سرخ فیتے کی نظر نہیں ہوگا۔
قائد اعظم کی جائے پیدائش کے حوالے سے جھرک کے دلائل زیادہ وزنی ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ بھٹو صاحب کے دور میں یہ کسے سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے کراچی کو قائد کی جائے پیدائش قرار دے دیا۔ آپ تصور کیجیے کہ اگر جھرک کو قائد کی جائے پیدائش قرار دیا جاتا ہے تو اس چھوٹے سے قصبے کی قسمت جاگ جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ جھرک کے ایک مقامی پرائمری اسکول میں قائد اعظم کا نام بھی رجسٹرڈ تھا۔ بعد ازاں 70ء کی دہائی میں وہ رجسٹر حیدر آباد منتقل کیا گیا اور آج تک اس کا کچھ نہیں پتہ کہ کہاں گیا؟
یہ تو بڑا اہم کام ہے اور بڑی خوشی کی بات ہے۔۔ لیکن ڈر ہے کہ شہری حکومتوںکا نظام لپیٹ دیا گیا تو یہ بھی سرد خانے کی نظر ہوجائے گا۔