پاکستان میں رمضان کے مہینے میں مختلف قسم کے گیت اور نعتوں کے خصوصی البم جاری کرے جاتے ہیں۔ نعت خوانی یا مذہبی نغمہ سرائی ایک نہایت منافع بخش انڈسٹری ہے۔ ہر سال لاکھوں روپے ان نعتوں، حمد، قوالیوں اور گیتوں کی ریکارڈنگ پر خرچ کرے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ان البمز کی مارکیٹنگ، تشہیر اور ویڈیو میکنگ کی جاتی ہے۔ اس انڈسٹری سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ رمضان اور ربیع الاول کے مہینے میں یہ سی ڈیز خوب بکتی ہیں۔ خیر رمضان میں اس بار کئی مشہور قوالوں، نعت خوانوں نے اپنے اپنے ویڈیوز جاری کئے ہیں۔ حتی کہ اولپرز دودھ بنانے والوں نے بھی پاکستان کے سب سے بڑے راک اسٹار عاطف اسلم کو اپنے اشتہار میں "ہم مصطفوی ہیں” گوایا ہے۔ اور لاکھوں روپے کی لاگت سے اس اشتہار کی ویڈیو تیار کی ہے جس میں دنیا بھر کے خوش لباس اور خوبصورت مسلمانوں کو افطار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ان خوبصورت، خوش لباس اور باعمل و باایمان مسلمانوں کے نغموں میں اس بار ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا ویڈیو بازی لے گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہر سال رمضان کے موقع پر جیو ٹی وی کے تحت خصوصی رمضان و سحر ٹرانسمیشن کا اہتمام کرتے ہیں۔ اکثر ان کے پروگرامز میں لوگ کالز کرتے ہیں اور رمضان کے حوالے سے پیچیدہ مسئلے مسائل جیسے اگر کلی کرتے ہوئے پانی حلق میں چلا جائے تو کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ وغیرہ پوچھے جاتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب ملک کے مایہ ناز عالموں سے ان پیچیدہ مسائل کے جوابات طلب کرتے ہیں۔ اس دوران ناظرین ایس ایم ایس کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں جو نیچے سلائیڈز میں ہمیں پڑھوائے جاتے ہیں۔ ان پروگرامز کے گرافک دبئی میں بھارتی گرافک ڈیزائنرز بناتے ہیں، ان کی موسیقی کے لئے جیو ٹاپ کے موسیقاروں کی خدمات حاصل کرتا ہے جن کا حوالہ بھی نہیں دیا جاتا۔ دسیوں افراد کی پوری بٹالین یہ پروگرام لائیو نشر کرتی ہے جس میں مختلف حصے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے افطار اوقات کے ساتھ ہی عامر لیاقت حسین کا نغمہ سنایا جاتا ہے۔
روزہ داروں کے رمضان کا اصل لطف پکوڑوں سموسوں اور عامر لیاقت حسین کے گیت کے بغیر ادھورا ہے۔ ڈاکٹر عامر کے علاوہ کئی اور حضرات ہیں جن کے ویڈیوز مختلف ٹی وی چینلز نے تیار کرائے ہیں۔ ان روحانی آئٹمز کے علاوہ ہمارا کیبل والا بھی پانچ چھ چینلوں ہر اویس قادری و ہمنوا کی نعتوں کے ویڈیو چلاتا ہے۔ اویس قادری کے ویڈیوز کی کوالٹی ہندوستانی سوپ اوپرا ڈراموں جیسی ہوتی ہے۔ اس میں فل گلیمر ہوتا ہے۔ ایک بیش قیمت سیٹ لگا ہوتا ہے جس میں پس منظر میں گنبد خضری کا نظارہ ہوتا ہے۔ اور اویس قادری مدراسی اور دبکے کے کام والی شیروانی زیب تن کرے براجمان ہوتے ہیں اور لہک لہک کر اور ہاتھ لہرا لہرا کر اپنی نعت کا ویڈیو ریکارڈ کراتے ہیں۔
جناب غلام فرید صابری قوال کے صاحبزادے۔ امجد صابری بھی گلیمر اور شہرت کی اس دوڑ میں اس بار اپنے والد کی ہی ایک قوالی کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کی قوالی کو ریمکس کیا ہے اور کھڑے ہوکر قوالی پیش کی ہے۔ یہ قوالیاں آج ٹی وی پر پیش کی جاتی ہیں۔ بہت ہی lavish پروڈکشن کے ساتھ ان ویڈیوز کو بالکل کسی راک و پاپ سنگر کے میوزک ویڈیو کی طرح ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ان خوبصورت دینی اور ایمانی گیتوں کے بعد جو وقت بچ جاتا ہے اس میں گھی اور فون کمپنیوں کے اشتہارات پیش کئے جاتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یوفون کے گھنٹہ پیکج سے تین روپے میں ایک گھنٹے تک کسی بھی نمبر پر بات کی جاسکتی ہے، سحر و افطار کے اوقات کی اطلاع تمام فون کمپنیاں محض دس روپے (علاوہ ٹیکس) میں فراہم کررہی ہیں اور ڈالڈا گھی کی خریداری پر لاکھوں روپے کے نقد انعامات دئیے جارہے ہیں۔ ڈالڈا والوں کے اشتہار میں ایک تندرست و توانا قسم کی اور میک اپ سے لبریز روزہ دار خاتون خانہ ایک ہاتھ میں ڈالڈا کا پانچ کلو کا ڈبہ اور دوسرے میں سو سو کے نوٹ پکڑے جارہی ہوتی ہیں۔ خیر ہم ڈالڈا استعمال نہیں کرتے کیونکہ ڈالڈا والوں کا کہنا ہے کہ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا اور ہماری والدہ تو اب جنت میں ہیں۔
رمضان ٹرانسمیشن سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے تمام مسلمان خوش لباس، خوش شکل، نعت و مذہبی موسیقی کے رسیا، فون پر گھنٹوں باتیں کرنے والے اور ڈالڈا میں تلے ہوئے شامی کباب کھانے والے لوگ ہیں۔ ان لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ شوکت خانم ہو یا SSUIT، ایدھی صاحب ہوں یا کوئی اور فلاحی ادارہ سب ان کی زکوِٰۃ و خیرات کے امیدوار ہیں۔ پتہ نہیں وہ کون لوگ ہیں جو نیوز چینلز کے بلیٹنز میں چیتھڑے پہنے، گرمی اور بارش میں آٹا لوٹتے ہوئے، پولیس سے لاٹھیاں کھاتے ہوئے اور سڑکوں پر افطار کرتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔ اور پتہ نہیں وہ کونسے پاکستان میں رہتے ہیں۔
بجا فرمایا پتا نہیں وہ کونسے پاکستان میں رہتے ہیں۔
نعمان، آپنے بڑی اچھی تصویر کشی کی ہے۔ ہمارے رمضانوں کی۔اسے کہتے ہیں بات منہ سے چھیننا۔ صب سے پہلے تو اتنی گلیمرازڈ اور کوی اثر سے خالی نعتیں جن پر قیمتی اور فینسی کپڑے پہن کر انہیں گانے والے جس طرح جھومتے ہیں۔ اس نے اس صنف کا وقار ختم کر دیا ہے۔ پہلے کوئ کہتا تھا کہ وہ نعت گا رہے ہیں تو میں اسکی تصحیح کرتی تھی کہ نعت کے ساتھ پڑھنے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور اب میں خاموش ہو جاتی ہوں جہاں اور چیزوں کی شکل مسخ کر دی گئ ہے وہاں یہ اور سہی۔ وہ نعتخواں کہاں چلگئے جن کی نعتوں سے دل موم کے ہوجاتے تھے۔ انکو دیکھکر تو ہنسی آتی ہے۔
اور یہ عامر لیاقت، انہیں جیو والے کتنا استعمال کرتے ہیں مذہبی ایکٹنگ کے لیئے۔ اور جب میں لوگوں کو ان کے متعلق بڑے احترام سے باتیں کرتے دیکھتی ہوں تو اور تکلیف ہوتی ہے۔
جیو نے مارکیٹنگ اور مشہوری کے لیئے ہر اصول اور ضابطے کو بیچ ڈالا ہے۔
صرف رمضانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اب مذہب کو کتنا ذاتی مقاصد کے لئے اور تشہیر کے لیئے استعمال کیا جانا لگا ہے۔ اور لوگ ظاہریت پر کتنی جان دینے لگے ہیں۔
لیکن ان سب باتوں سے ہٹ کر ان چیزوں کی ڈیمانڈ ہے جبھی تو لوگ اسکے لئے اتنی انویسٹمنٹ کرتے ہیں یا نہیں۔
لیکن ایک بات تو ثابت ہے کہ ہم پاکستانیوں کو بے حس نہیں کہہ سکتے ایک حس تو ان میں بہر حال ہے اور وہ ہے حس جمالیات۔ انہیں خوبصورتی پسند ہے اور وہ صرف اسے محسوس کرتے ہیں۔
آپ نے بڑے خوبصورت انداز میں مسلمانوں کے قول و فعل میں تضاد کو واضح کیا ہے مگر جن تک یہ پیغام پہنچانا مقصود ہے وہ گونگے بہرے ہیں اور رمضان میں روزوں کی وجہ سے بھوک نے ان کے ہوش و ہواس گم کر دییے ہیں۔
عنیقہ خوبصورتی تو اشتہار بازی کا اہم عنصر ہے پاکستانی کیا ساری دنیا میں اسے تشہیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تو پاکستان میں کچھ نیا نہیں ہورہا۔ صرف رمضان سے اس کا تعلق اور کس طرح رمضان کو اشتہار بازی اور موسیقی کی صنعت کے فروغ میں استعمال کیا جارہا ہے وہ شاید دنیا بھر کے تشہیری اداروں کو بطور مثال پڑھانا چاہئے۔
جس طرح اہل مغرب کرسمس کو ایک زبردست تجارتی و کاروباری تہوار بنا چکے ہیں ہم بھی اسی سمت رواں دواں ہیں۔ دیکھیں کب کوئی بوڑھا سبز رنگ کا چوغہ پہنے "ہو ہو ہو” کہتا ہماری دکانوں میں نمودار ہوتا ہے۔
مجھے سب سے زیادہ دکھ اسی بات کا ہے جس طرح نعت خوانی جیسی پاکیزہ چیز کی تذلیل کی جارہی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ایک زمامہ تھا کہ قاری وحید ظفر قاسمی کی آواز میں زہے مقدر سن کر آپ کی روح تک تڑپ جایا کرتی تھی اور اب یہ حال ہے کہ پرانی فلموں کے گانے بھی آج کل کی نعتوں سے زیادہ پاکیزہ معلوم ہوتے ہیں.
ایک بات کا اور اضافہ کہ آپ نے سبز رنگ کا چغہ پہنے بوڑھے کی بات کی ہے تو ربیع الاول، محرم اور شب برات جیسے ایام میں جو کسی نہ کسی طرح دین سے ہی جڑے ہیں اس طرح کی کئی چیزیں رواج پا چکی ہیں۔ پہلے پہل یہ اس انتہا تک نہیں ہوتی تھیں لیکن جیسے جیسے فرقہ پرستی، کنٹرول اور شناخت کا مسئلہ اٹھا ہے ہر تہوار مذہبی عقیدت، جوش و خروش اور جنون سے منایا جانے لگا ہے جس میں دین کی اصل روح اس بری طرح پامال کی جاتی ہے انسان صرف خدا کی پناہ مانگ سکتا ہے
اللہ کا شکر ہے کہ میں ٹی وی نہیں دیکھتا بالخصاص رمضان میں بالکل نہیں ۔
رہے لوگ جن کا آپ نے تذکرہ کیا ہے تو ان کے لئے ہر چیز بکاؤ ہے سو ان سے کیا گلہ
بالخصوص لکھنا تھا
راشد صاحب آپکی یہ بات بالکل درست ہے کہ فرقہ پرستی اور شناخت نے بڑی چیزوں کو رواج دیا ہے۔ پہلے صرف شیعوں کے جلوس نکلتے تھے اور مجالس ہوتی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سنیوں نے بھی ربیع الاول جیسے با وقار مہینے کو ان جیسی چیزوں سے بھر دیا۔ اب انکے بھی بڑے بڑے جلوس نکلتے ہیں۔ یہاں میں وضاحت کر دوں کہ میرا تعلق سنی فقہ سے ہے۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ چیز پسند نہیں کہ محض دوسرے فرقوں یا مذاہب سے مقابلہ کرنے کے لئے ہم نئ چیزیں ایجاد کریں۔ اسی وجہ سے شب برات کے پٹاخے اور آتشبازی وجود میں آئے کہ ہندءووں کی دیوالی سے مقابلہ کرنا ہے۔
اپنے تہواروںکی طرز فکر کو پہچاننا ضروری ہے۔ نہ کہ دوسروں سے مقابلہ بازی۔
نعمان بھائی آپ کو یاد ہوگا گزشتہ رمضان میں ہم دونوں کی اس موضوع پر گفتگو ہوئی تھی، اس گفتگو میں خاص طور پر رمضان کو ایک "فیسٹیول” بنانے کے رویے کی مذمت کی گئی تھی۔ جس مہینے کو قربانی کا مہینہ قرار دیا گیا ہم نے اسے کھانے پینے کا مہینہ بنا لیا۔
بہرحال اگر کوئی اچھی نعتیں پیش کر رہا ہے تو میرے خیال میں اسے زیر عتاب نہیں لانا چاہیے۔ کمرشل ازم کی تمام تر مخالفت کے باوجود مجھے اولپرز کا اشتہار بہت اچھا لگا۔ ایک جانب جہاں اچھے اچھے چہرے دکھائے جاتے ہیں وہیں جیو پر پیش ہونے والی اذان میں عام لوگوں کی افطاری بھی دکھائی جاتی ہے۔ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
البتہ جو بات مذمت کرنے کی ہے وہ ہمارا بحیثیت مجموعی رویہ ہے۔ رمضان ہم سے جس رویے کا تقاضآ کرتا ہے ہم اس کے بالکل الٹ جا رہے ہیں۔ صبر و ایثار کا جو سبق ہمیں ملنا چاہیے ہم بجائے اس کے ہڑ بونگ اور خود غرضی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ روزانہ ٹریفک جام اور آٹے اور چینی پر ہونے والی چھینا جھپٹی کی خبریں پڑھ ہی رہے ہوں گے۔
اس وقت ہمیں رمضان کو اس کی اصل روح کے مطابق گزارنے اور اس سے سال بھر کے لیے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
باقی یہ "ذکر” کے ساتھ نعتوں کا جو چلن چل پڑا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
راشد پرانی فلموں سے یاد آیا: ملاحظہ فرمائیں صبیحہ خانم زبیدہ خانم کی ایک نعت پر لب ہلارہی ہیں۔
ابوشامل اولپرز کا اشتہار، اشتہار بازی کی ایک عمدہ مثال ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہترین اشتہار ہے۔ جو مسلمانوں کے نظریہ امت، اخوت، روحانیت اور رمضانیت کو بخوبی استعمال کرتا ہے۔ خوبصورت عکاسی اور بے عمدہ گائیگی نے اسے چار چاند لگا دئیے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر ان اشتہارات یا نعتوں سے کوئی خاص تکلیف نہیں۔ لیکن مجھے اس بات کا مشاہدہ بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے کہ مذہب اور تجارت کے امتزاج سے کس طرح نئے مواقع اور نئی راہیں نکالی جارہی ہیں۔
بس جی سرمایہ دارانہ نظام کے سائے تلے تو مذہب بھی ایک ایسی شے ہے جس سے صارف پیدا کیا جا سکتا ہے، اس لیے لگی ہوئی ہے صارف پیدا کرنے کی مشین۔
آپ کا تجزیہ پسند آیا۔
میں دبئی میں بھارتی گرافک ڈیزائنر ہوں مگر یہ کام تو میں نے نہیں کیا .
اور مجھے پاکستانیوں میں ایک ہی قوال پسند ہیں نصرت فتح علی خان I like his voice and creative music.
شعیب، جیو کی اپنی گرافک ٹیم ہے دبئی میں جس میں زیادہ تر بھارتی ملازم ہیں اور وہی جیو کے زیادہ تر گرافکس ڈیزائن کرتے ہیں۔
اللہ جانے، پتہ نہیں کیوں عامر لیاقت حسین ہمیں شروع سے یہ وہم رہا ہے۔ کہ یہ موصوف وہ ہیں نہیں جو نظر آتے ہیں۔ جب یہ غالبا عالم آن یا پتہ نہیں کیا نام سے جیو میں کسیمذہبی پروگرام کی میزبانی کرتے تھے اور مختلف مکاتب کے علماء سے مسائل کے بارے میں رائے پیش کرتے تھے۔ تبھی بھی ہمیں یہ صاحب ریاکاری اور تصنع کرتے محسوس ہوتے تھے۔ وہ پروگرام عم نظر سے دیکھنے پہ بھی ان سے پتہ چلتا ہے کہ عام لوگوں کی دینی معلمات کے ساتھ ساتھ عامر لیاقت حسین اپنے آپ کو بھی پروجیکٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کیونکہ اگر مقصد دین و اسلام کی ترویج ہو یا کسی ایسے پروگرام کی میزبانی کرنے کے لئیے صدق دل اور نیک نیتی سے کام کرنے والوں کا تو انداز نہائت سادہ ہوتا ہے۔ جبک موصوف کی ہر بات ہر ادا میں ایک خاص بناوٹ ہوتی تھی یہ تب کی بات کررہا ہوں جب موصوف کی ڈاکٹریٹ کی کی جعلی ڈگری کا مسءلہ نہین اٹھا تھا اور موصوٖ تب غالبا ایم کیو ایم کی طرف سے قومی اسملی میں کوئی وزیر شزیر نہیں بنے تھے ۔ شاید۔
آپ نے بڑی مہارت سے ایک اچھا نکتہ اٹھایا ہے۔
پاکستان میں ہر سطح پہ دہورا معیار پایا جاتا ہے جسے آسان لفظوں میں "منافقت” کہا جاتا ہے۔ سادگی اور قناعت جیسے سنہری اصولوں کی جگہ ریاکاری بناوٹ اور تصنع جیسی لعنتوں نے لے لی ہے۔ جو ہمارے کم تعلیم یافتہ اور شعور سے بیگانہ معاشرے میں ہر جگہ بدرجہ اتم تو ملتی ہی ہے۔ مگر وہ لوگ جو اپنے آپ کو علامہ کہلاتے ہیں اور ڈگریوں کی کتابیں اٹھائے گھومتے ہیں۔ لیکن علم سے اتن ہی بے بہرہ ہیں جتنا عام آدمی۔ ایسے لوگوں کا پوری سوساءٹی پہ ہولڈ ہے ۔ یہ پڑھے لکھی ایلیٹ کلاس بھی پاکستانی معاشرے کے اس تضاد کی کسی حد تک ذمہدار ہے ۔ کیونکہ جب یہ لوگ پاکستان میں کسی معمولی سے معمولی عہدے پہ قابض ہوں تو یہ ماسوائے اپنے مفاد کے کے ساتھ ہر وہ کام کرتے ہیں جو انکے منصب اور عہدے کے خلاف ہو۔ جسکی یہ لمبی تنخواہیں اور سہولتیں پاتے ہیں۔ تب ان کو اپنے سنہرے آدرش اور ہر قسم کے اصول بھول جاتے ہیں۔ اس لئیے معاشری میں افراتفری، لوٹ سیل۔ افلاس، غربت۔ جہالت، ناخواندگی۔ اور ہر قسم کی لعنتیں کسی بھی تیسری دنیا کے ملک سے ذیادہ ہیں ۔ کیونکہ بڑے بڑے اداروں پہ قابض اور ان کے چیلے چانٹوں نے کبھی صدق دل سے پاکستانی قوم کی اصلاح یا انہیں کچھ سکھانے کی یا ان کے لئیے کچھ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ فند ملتے ہیں۔ اور بعض اوقات سوفیصد تک خردبرد کر لئیے جاتے ہیں۔ چھیچھڑوں کی حفاظت پہ بللیاں بیتھیں ہیں۔
جنہوں نے معاشرے کے ہر معاملے اور توجہ طلب مسائل پہ قانون سازی کرنی تھی، تانکہ روزمرہ کے اٹھتے مسائل پہ توجہ دی جاسکتی۔ مسائل کو روزمرہ کی بنیاد پہ حل کیا جاسکتا۔ انہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے فرصت نہیں۔ تو معاشرے میں اچھائی کہاں سے آتی۔ اچھائی یا برائی قوموں میں بتدریج آتی ہے۔ اسی طرح اصلاح بھی بتدریج ہوتی ہے۔ اب یہ اتنے سالوں کا خلاء جلد پورا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے
یہاں تو یہ علام ہے کہ امریکہ کی ہدایت پہ پاکستانی قوم لا اقتدرا اعلٰی کی بساط لپیٹنے کے بعد ایک مرد مومن قوم کو متواتر گیارہ سال اسلام کے بہانے ٹکٹی پہ لٹکائے رکھتا ہے۔ امریکہ کے مقاصد اور ترجیجات بدل جاتی ہیں اور ایک نیا آمر پروگرام عزیز ہموطنوں جاری کردیتا ہے اورپچھلے ڈکٹیٹر کے "اسلامیوں” کو روشن خیالی کی وہ ڈوز دیتا ہے کہ خود امریکہ اور یوروپ جیسے روشن خیال بھی منہ کھول کر دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
جب حکمران طبقہ نہ صرف شاہ امریکہ کا درباری اور کاسہ لیس ہو بلکہ اپنے آپ کو امریکہ کا نماءندہ سمجھتے ہوئے صرف اور امریکہ کے مفادات اور ترجیجات کے تابع ہو۔ اور اسکا اوڑھنا بچھونا امریکہ کی رضامندی اور چاپلوسی کرنا ہو۔ یا پھر پاکستان کو لوٹنے کھسوٹنے ہوئے اپنے ان ذاتی مفادات کی آبیاری کرنا ہو جسکی اجازت "بطور رشوت ” امریکہ نے دے رکھی تو ایسے میں ڈھول کی تاپ اور لغو انڈین گانوں کے چرائی دھنوں پہ نعتوں کے بارے میں کون غوروفکر کرتے ہوئے کون قانون سازی کرتا یا ضوابط وضح کرتا۔ تو ایسے میں مالی فوائد اٹھانے والے کی بن آئی اور انہوں نے اسے بھی تجارت بنا دیا۔ مجھے کبھی کبھار بھارتی سندھی ہندو بزنس کمیونتی سے واسطہ رہا ہے۔ وہ کتڑ ہندو ہونے کے باوجود مسلمان کے مقامات مقدسی کی تصاویر سے مزین الارم کلاک۔ ڈیجیٹل آڈیو وگرہ اور کرسچئین کے کراس اور کرائسٹ اور ماریا وغیرہ کے مجسمے بھی محض اپنے مالی مفاڈ کے لئیے بیچنے سے نہیں چونکتے۔ اور کچھ ایسا حال ٰہودی تاجروں کا بھی ہے۔ اب کچھ مسلمان کہلوانے والے تاجر بھی وہی کرنا شروع کررہے ہیں۔
میں نے مختلف وقت میں مساجد میں خوش الحانی سے نعتیں پڑھتے مختلف نعت خواہوں کو سنا ہے جن سے روح سرشار ہوجاتی تھی۔ مگر جب سے انڈین گانوں کی دھن پہ نعے کہیں سنی تھی تب سے میں نے تردد کر کر نعت سننا چھوڑ دیا ہے ۔ اور صرف صرف تلاوت قرآن کریم سننے تک محدود کر لیا ہے، البتہ انٹر نیٹ پہ کسی صالح اور خوش الحان کی بغیر سازوں کے کوئی اچھی نعت ہو تو سن لیتا۔ میرے خیال کچھ ایسا معاملہ دوسروں کے ساتھ بھی ہوگا۔
عنیقہ بی بی! کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ محض ایک دوسرے کی ضد میں نئے نئے رنگ ڈھنگ اپنانے جلوس نکالنے اور اسے جواز بنا کر فتنہ شرارت کا موقع پیدا کرنا ۔ یہ سب نہیں ہونا چاہئیے۔ یہ طریقہ اسلامی ہی نہیں ۔ بلکہ ایسا کرنے کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں۔ اور جو جان بوجھ کر ایسا کرے وہ اسلام کی مخلافت کر رہا ہوتا ہے۔
اسکے علاوہ ہر محلے ِگاؤں ، دیہات، علاقےِِ، قصبے یا شہروں میں صرف اس علاقے کی جامع مسجد کو یا زیادہ سے زیادہ مختلف مسالک کی جامع مسجد کو ایک علاقے میں لاؤڈ اسپیکرز پہ ازان دینے کی اجازت دینی چاہئیے۔ جو اس مطلوبہ علاقے سے باہر جہاں آزان کی آوز نہ جائے وہاں دوسری کسی ایک مسجد کو لاؤڈ اسپیکر میں ازان کی اجازت ہو۔ اور لاؤد اسپیکرز کی طاقت کا بھی ایک معیار مقرر ہو کہ اس سے بڑھ کر زیادہ طاقت کی لاوڈاسپکیر یا انکا والیوم منع قرار دیا جائے۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ حل نہ کیا جاسکے۔ مجھے مختلف مسالک کے کچھ قصبوں مین نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ ازانوں کیا تنی کمپیٹیشن ہوتی ہے کہ آپ نماز شروع کر چکے ہوتے ہیں اور کچھ پتہ نیں چلتا کہ کونسی مسجد سے کیا ازان دی جارہی ہے۔ ازان کے کلمے سنائی نہیں دیتے اسپیکرز کی چھنگاڑیں ہوتی ہیں گونج ہوتی ہے۔ مختلف مسالک کے اوقات میں فرق ہونے سے یہ ساللہ مگرب کو پندہ منت سے زیادہ لمبا ہوتاہے۔ اسلام اجتہاد کا مذھب ہے تمام مکتبہء فکر کے علما کے ساتھ مشاورت کر کے اسے حل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح عید رمضان بھی مکہ معظمہ میں چاند نظر آنے کے ساتھ منسلک کی جائے۔ تانکہ مسلمانوں میں یکجہتی پیدا ہو۔
مجھے علم ہے کہ میری ان تجاویز پہ بہت سے لوگ چیں بہ چیں ہونگے مگر صاحب آخر کیا بات ہے کیا وجہ ہے۔ کہ ہمارا دین اتنا صاف ستھرا آسان اور صاف ہونے کے باوجود بھی۔ ہم پاکستانی مسلمان ہر غیر اسلامی عادت کے خوگر ہیں۔ اور وہ اصلاح ہوتی نظر نہیں آرہی جسکا اسلام تقاضہ کرتا جبکہ ہم پاکستانی اپنے مسلمان ہونے پر غالبا باقی دنیا کے مسلمانوں سے سب سے بڑھ کر زیادہ زور دیتے ہیں
رمضان کا مہینہ ہے ہمیں چاھئیے کہ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹا اور بنیادی ضرورتوں کی اشیاء کو مہنگے داموں ہی سہی خرید کر اگر ضرورتمندوں کو مفت نہیں تو کم قیمت پہ ہی سہی ان میں بانٹ کر سفید پوش اور پسے ہوئے طبقے کے رمضان اور عید کی ضرورتیں پوریں کر دیں۔ شاید اسی طرح ہمارے اللے تللوں میں کروڑوں اڑانے والے حکمرانوں کو شرم آجائے ۔ جو لگتا نہیں کہ آئے۔ مگر خوش خیالی کا کوئی بہانہ تو ہونا چاہئیے۔
پاکستان کی مخیر حضرات کو بھی لوگوں کی عزت نفس کو یوں لائینوں میں پسنے سے بچانے کے لئیے اپنے طور پہ مینگی اشیائ خرید کر نسبا کم قیمت پہ بیچنے کا بندوبست کرنا چاہئیے۔
اللہ آپ کو آپکی نیک نیتی کا اجر دے۔
میری اس رائے میں املا کی بے شمار غلطیاں ہیں۔ جنہیں درگزر کیا جائے۔ میرے کی بورڈ میں کوئی مسئلہ ہے۔ جسے میں دوبارہ کنفگریشن کر کر دیکوں گا۔ انشاءاللہ
اگر کسی نے اس داستان الف لیلہ کو پورا پڑھا ہوگا تو غلطیوں پر بھی غور کرے گا