جبکہ جیو ٹیلیوژن کے چند صحافی شد و مد سے شریف برادران اور کمپنی کے آئی ایس آئی سے گٹھ جوڑ کے ذریعے سیاستدانوں کو خریدنے کے اسکینڈل کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں روّف کلاسرا اپنے کالم "دولت مندی اور جرم کا رشتہ” میں میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہمارے میڈیا کو داد دینی چاہیے جس نے بریگیڈیئر امتیاز کو بات پوری نہیں کرنے دی۔ وہ ان لوگوں کے بارے میں انکشافات کر رہا ہے جو زندہ ہیں۔ دنیا بھر میں سیکرٹ ایجنسیوں کے لوگ کتابیں لکھتے ہیں۔ رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر کوئی یہ بات کر رہا ہے تو اسے چپ کرایا جا رہا ہے۔ بریگیڈیئر امتیاز جھوٹا ہے یا سچا کم از کم ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ اسلام، جمہوریت اور آزاد عدلیہ کا نعرہ مارنے والوں نے کھل کر اپنی سیاسی روحوں اور ضمیر کا سودا کیا۔ جب ان سیاستدانوں کے ماضی کے راز باہر نکلنے کی باری آتی ہے تو ہمارا میڈیا اسے سازش قرار دے دیتا ہے۔ ان شریف سیاستدانوں کے دفاع میں میڈیا خود تحریک چلاتا ہے۔ ہمارا دنیا کا واحد میڈیا ہوگا جو سیاستدانوں کے کرتوت چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ جو نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع نہیں دے گا۔ ہمارا اس سے بڑا دیوالیہ پن کیا ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے سیکرٹ ایجنسیوں سے رقوم لیں انہیں ہم نے وزیراعظم بنایا، اپنے کندھوں پر بٹھایا، انہیں اپنی زندگی اور موت کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا۔ اب ہم ان کا دفاع بھی دل و جان سے کر رہے ہیں۔
مجھے پاکستان میں آزاد عدلیہ اور اینٹی زرداری صحافیوں کی منطق کا یہ حصہ سمجھ نہیں آتا۔ ان کی نظر میں ایک پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے قابل سزا اور دوسرے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے رہبر ہیں۔ ان کے تحت این آر او قابل تنقید اور کھلے عام ایجنسیوں سے پیسے لیکر حکومتیں گرانے اور بنانے والے سیاستدان قابل تقلید ہیں۔ جامعہ حفصہ اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشنز قابل سزا جرم اور کراچی میں ایک دہائی تک کیا گیا نسلی قتل عام قابل فراموش داستان ہے۔
دراصل دونوں اطراف کے لوگ اپنی اپنی ہانکے جا رہے ہیں۔ یعنی ایک گروپ کراچی کے مظالم کا رونا روتا ہے تو دوسرا شمالی علاقوں اور لال مسجد کا۔ ایک گروپ نواز شریف کے اے ایس آئی سے رقوم لینے کو برا کہتا ہے مگر دوسری پارٹیوں نے جو لیا اس پر چپ سادھ لیتا ہے۔ ایک گروپ نواز شریف دور میں ایم کیو ایم آپریشن پر شور مچاتا ہے مگر پیپلز پارٹی کے دور میں ایم کیو ایم پر ڈھائے گئے مظالم پر خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ ایک گروپ پرویز مشرف کو اب بھی ملک کا مسیحا مانتا ہے اور کراچی کے بارہ مئی اور پھر نو اپریل کے واقعات پر خاموش رہتا ہے۔ ثابت یہی ہوا کہ دونوں طرف کے لوگ انتہا پسند ہیں اور ابھی تک کوئی ایسا گروپ سامنے نہیں آیا جو انصاف کی بات کہے۔
سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ برگیڈیئر امتیاز کو بھی اب بڑھاپے میں کسی نے انگلی ہی دی ہے تو اس نے کمر دوہری ہونے کے ڈر کے باوجود رنڈیوں کی طرح ٹھمکے لگانے شروع کردئیے ہیں۔ بلوچستان کے حالات، مہنگائی کی صورت حال اور شمالی علاقوں کے امن و امان کے مسائل کو پس پشت ڈال کر ہمارا میڈیا اب ان سیاستدانوں کے گندے کپڑے سربازار دھو رہا ہے۔ عوام قطاروں میں لگے آٹا خرید رہے ہیں انھیں کیا کہ کسی نے اسلام کے نام پر پیسے لیے تھے یا نہیں۔ انہیں تو سستے آٹے اور چینی سے غرض ہے۔
آپکی تحاریر سے غیر جانبداری( اگر کبھی تھی تو) اب ختم ہوچکی ہے۔
آپکے عنوان شریف میڈیا سے مجھے لگا وہ میڈیا جو شریف برادران کے لئے کام کر رہا ہے۔ میڈیا کو جب سے آزادی نصیب ہوئ ہے انکا چلن کچھ یونہی رہا ہے۔ جہاں انہوں نے لال مسجد والے معاملے کو اچھالا وہاں انہوں نے طالبان کو ہیرو بنا کر قوم کی رگوں میں اتار دیا۔
غیر جانبدار میڈیا ہونا تو دور کی بات ہے ان میں سے کچھ لوگ تو باقاعدہ مخصوص لوگوں کی مہم چلا رہے ہوتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے لئے ٹی وی کے آگے بیٹھ جائیں اور سارے پاکستانی چینلز کو سرف کر لیں، آپکو اندازہ ہو جائے گا کہ کون کس کے لئے کام کر رہا ہے۔ اس صے خیر ایک آسانی تو رہتی ہے کہ آپ پہلے سے سوچ لیتے ہیں کہ یہ خبر کس چینل پہ دیکھنی چاہئیے۔ مثلاً مشرف کے بارے میں کچھ نہپ پتہ چل رہا ہو تو جیو دیکھ لیں۔ نواز شریف کے بعد انہیں سب سے زیادہ بے چینی ہے۔
نواز شریف کی تعریفیں جاننا ہو تو، دنیا، وقت اور دن پہ چلے جائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ صرف ہمارے میڈیا کی خوبی نہیں تمام دنیا میں میڈیا یہی کر رہا ہے۔ دراصل اب کسی جگہ حالات کو اگر اپنی مرضی سے قابو میں لانا ہو تو عوام کی رائے دیکھی نہیں جاتی بلکہ بنائ جاتی ہے۔
صحافیانہ ضمیر اب قرون اولی کے زمانے کی باتیں لگتی ہیں آج تو یہ حال ہے کہ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ آپ جتنا پیسہ کھلا سکتے ہیں اتنا میڈیا آپکو کوریج بھی دے گا اور آپ کی جے جے کار بھی کرے گا اس لحاظ سے تو مجھے مشرف خاصا غریب لگا،الطاف سے بھی زیادہ،
4. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ِ اسپین رقم طراز ہیں:
September 7th, 2009 5:47 am
آپکی تحاریر سے غیر جانبداری( اگر کبھی تھی تو) اب ختم ہوچکی ہے۔
سبحان اللہ کیا تجزیہ فرمایا ہے جہاں سب ایک ہی زبان میں کاؤںکاؤں کرکے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوں،اور جناب بھی اس مین حصہ بقدر جثہ ڈال کر ثواب دارین حاصل کررہے ہوں وہاں یہ تبصرہ خود اپنے منہ پر جوتا ہے!
ویسے جناب کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ یہ تحریر نعمان کی نہیں رؤف کلاسرہ کی ہے!
نوٹ: تبصرہ ایڈیٹ کیا گیا ہے۔
میرا پاکستان ثابت یہ ہوا کہ ابھی ثابت کچھ نہیں ہوا ہے اور بہت کچھ ثابت ہونا باقی ہے،کچھ آئی سمجھ یا نہیں!
نوٹ: تبصرہ مٹا دیا گیا ہے۔
جاوید: میری تحریر کا کونسا پورشن جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے؟ میں تو میڈیا کے دوغلے پن کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرارہا ہوں٘۔
عنیقہ: شریف میڈیا سے میری مراد وہی میڈیا ہے جو شریفان کی صفائی پیش کرنے میں جتا رہتا ہے۔ میڈیا کا سارا زور اس بات پر ہے کہ نوازشریف اور آئی جے آئی کے آپریشن مڈنائٹ حیکال میں ایجنسیوں سے پیسے لینے کا اسکینڈل قابل غور نہ رہے۔
دوست: میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ بریگیڈئر امتیاز یہ سب کچھ کسی اور کے اشارے پر کررہے ہیں۔ لیکن کیا ان کے انکشافات پر ہماری آزاد عدلیہ کو حرکت میں نہیں آجانا چاہئے؟ یا یہ عدلیہ محض شریفان کو پارلیمان تک پہنچانے کے لئے آزاد ہوئی تھی؟ وہ عدلیہ جو مشرف کے دور میں ٹریفک جام ہونے تک پر از خود نوٹس لے رہی تھی وہ آج منہ میں انگلیاں ڈالے بیٹھی ہے۔
"لیکن کیا ان کے انکشافات پر ہماری آزاد عدلیہ کو حرکت میں نہیں آجانا چاہئے؟”
عدلیہ بھی تو شریف عدلیہ ہے۔
نوٹ: تبصرہ مٹا دیا گیا ہے
براہ مہربانی دھمکیوں، نسلی تعصب پر مبنی القابات، اور ذاتیات پر بات نہ کریں۔ پوسٹ پڑھیں اور صرف اس موضوع پر ہی بات کریں۔
جاوید: میرے خیال میں تو یہ آزاد عدلیہ ہے جسکی بحالی کے لئے پورے صوبہ پنجاب میں بھنگڑے ڈالے گئے تھے نہ کہ شریف عدلیہ۔
نعمان اوپر والے تبصرے میں پنجابی مینے خدانخواستہ کسی برائی میں نہیں کہا تھا بلکہ ان جیسے لوگوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ پورا پنجاب ان کے ذہن سے نہیں سوچتا,
باقی تمھاری بات صحیح ہے بظاہر تو ایسا ہی نظر آتا تھا مگر
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
کچھ لوگ اگر جان بوجھ کر سچائی سے نظریں چرانا چاہیں تو ان کو کون سچ دیکھنے پر مجبور کرسکتا ہے
۔۔۔تو یہ آزاد عدلیہ ہےجسکی بحالی کے لئے پورے صوبہ پنجاب میں بھنگڑے ڈالے گئے۔۔۔۔
بھنگڑے نا صرف پنجاب بلکہ سندھ ، سرحد اور بولستان میں بھی ڈالے گئے۔ مگر وہ مقاصد محض ایک چیف جسٹس حاصل نہیں کرسکتا، جسے ختم کرنے کو اور ہیرا پھیری میں بدلنے کو انتہائی دبدیانت سیاستدان اور اشرافیہ آپس میں اشراک کئیے بیٹھی ہو۔
بولستان۔۔ کو بلوچستان پڑھا جائے۔
‘بھنگڑے نا صرف پنجاب بلکہ سندھ ، سرحد اور بولستان میں بھی ڈالے گئے۔ مگر وہ مقاصد محض ایک چیف جسٹس حاصل نہیں کرسکتا، جسے ختم کرنے کو اور ہیرا پھیری میں بدلنے کو انتہائی دبدیانت سیاستدان اور اشرافیہ آپس میں اشراک کئیے بیٹھی ہو۔’
یہ بات اب آپ خود بھی یاد رکھئے گا کہ ایک شخص چاہے وہ خود کتنا بھی مخلص ہو ایک پورے کرپٹ سسٹم سے نہیں لڑ سکتا کیونکہ یہی بات جب کوئ کسی اور کے متعلق کہتا ہے تو آپکے حلق سے نیچے نہیں اترتی۔ اسی طرح سے آپکی وابستگی سامنے آتی ہے۔