آج کراچی میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے چودہ خواتین ہلاک ہوگئیں۔ یہ ایک بہت ہی غمناک سانحہ ہے۔ میرے بچپن کے دنوں میں جب ہم خبروں میں قحط زدہ افریقی ممالک کے عوام کو راشن کے لئے قطاروں میں کھڑے اور ٹوٹے پھوٹے برتنوں میں جانوروں کی طرح کھاتے دیکھتے تھے تو ہمیں ان کے درد کا قطعا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے ملک میں تو کھیت لہلہارہے ہیں اور اس سرسبز و شاداب زمین پر تو کبھی ایسا قحط نہ آئے گا۔
مگر آج ہمارے ملک کی عوام خوراک کے حصول کے لئے جان ہار رہی ہے۔ قطاروں سے ناآشنا اور تنظیم سے ناواقف یہ قوم ہجوم کی شکل میں خوراک حاصل کرنے جمع ہورہی ہے۔ سینکڑوں ٹی وی چینلز کے نمائندے ہر جگہ اس بھوکی ننگی عوام کو آٹا اور چینی حاصل کرنے کے لئے قطاریں لگاتے، دھکے، گھونسے اور لاتیں کھاتے براہ راست دکھا رہے ہیں۔ افریقی عوام کی طرح اس عوام کی ہڈیاں نہیں نکلی ہوئیں، انہیں ہولناک وبائی امراض اور جنگوں کا بھی سامنا نہیں۔ یہ مکمل لباس پہنے ہوتے ہیں، ان کے پیروں میں چپل بھی ہوتی ہے، یہ خیموں بھی نہیں رہتے۔
میں آج خود ایک جگہ مفت راشن کی تقسیم کا نظارہ کررہا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ راشن تقسیم کرنے والے مخلصی سے اپنے کام میں مگن تھے مگر ضرورت مندوں کا رویہ قطعا غیر ضرورت مندانہ تھا۔ وہ منتظمین کو گالیاں دے رہے تھے، پولیس سے الجھ رہے تھے، ایک دوسرے پر حملے کررہے تھے حتی کہ ایک آدمی نے ایک بچے سے آٹے کا تھیلا چھینتے ہوئے اسے پھاڑ ڈالا۔
وہاں سے واپسی پر دیکھا کہ افطار کے لئے ہمارے گھر کی قریبی سڑک پر مفت افطار کے لئے میزیں لگی ہیں جن پر پھل، سموسے، پکوڑے، کھجوریں، شربت وغیرہ مل رہا ہے اور وہاں بھی لوگوں کی بڑی تعداد روزہ کھول رہی ہے۔ مسجد میں مفت افطار کا انتظام تو ہر جگہ ہی ہوتا ہے۔ مسجد کے اندر اور باہر مانگنے والوں کی قطاریں۔ نمازیوں کی آستینیں کھینچتیں برقع پوش خواتین اور ٹانگوں سے لپٹتے میلے اور گندے بچے۔ ہر جگہ مانگنے والوں کا تانتا بندھا ہے جو اس مال مفت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یقینا یہ لوگ مستحق بھی ہیں مگر کتنے؟ کیا ہم اپنے ملک میں ٹرکوں سے راشن لوٹنے کے کلچر کو خود ہی جنم دے رہے ہیں؟ کیا ہندوستان میں جہاں پاکستان سے جیسی ہی مہنگائی، بیروزگاری، اور غربت ہے وہاں حکومت راشن بیچ رہی ہے اور مخیر حضرات ٹرک لٹا رہے ہیں؟
خدارا یہ مفت خوراک کے سلسلے بند کریں، سستی خوراک کے ڈرامے بند کریں، لوگوں کی عزت نفس کو قتل نہ کیجئے۔ انہیں بھکاری، غیر مہذب، وحشی نہ بنائیں۔
انگریزی کا یاک محاورہ ہے جسکا مطلب ہے کہ روزانہ ایک مچھلی دینے سے بہتر ہے کہ آپ اسے مچھلی پکڑنے کا کانٹا دیدیں۔ تاکہ وہ یہ کام خود کرنے لگے۔ لیکن اس فعل میں بہت ساری قباحتیں ہیں ۔ نمبر ایک، دینے والے کو سوچنا پڑیگا کہ وہ کس طرح منصوبہ سازی کرے۔ جبکہ ہم خدا توکل کا لنگڑا سہارا لیکر صرف آج کے دن کی زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ نمبر دو، اس طرح سے مانگنے والوں میں خود انحصاری پیدا ہوگی جس کی وجہ سے سماج میں کثیر طبقاتی نظام ختم ہوگا، اس سے اعلی طبقات کو ذہنی و روحانی دھچکہ پہنچے گا آخر بے تحاشہ دولت کمانے کا مقصد کیا ہے؟ نمبر تین، پر خود انحصار شخص اپنے لئے خود سوچنے لگتا ہے۔ پھر جو اب انکے لئے سوچتے ہیں انکا کیا ہوگا؟ باقی لوگ جو ثواب حاصل کرنے کے لئے یہ سب کرتے ہیں، اگر غریب نہیں ہونگے تو وہ کیا کریں گے؟
مانگ کر کھانا، افیون کے نشے سے کم نہیں۔ اور پاکستانی قوم کافی عرصے تک اسکا نشہ کرتے کرتے اب اسکی عادی ہو چلی ہے۔ وہ دینے والوں سے اس بات کا احتجاج نہیں کرتے کہ ہمیں چلتی ہوئ ملیں، اور لہلہاتے کھیت چاہئیں۔ وہ صرف آٹا ور چینی مانگتے ہیں۔ آج مانگ رہے ہیں کل چھینیں گے پھر بھی نہیں سمجھیں گے کہ پوری زندگی دو تین چیزوں کے پیچھے نہیں گھومتی۔ انہیں ان مسائل کا ایک ٹھوس حل چاہئیے۔ جو انہیں اس معاشی بے چارگی سے باہر نکالے۔
یہ بڑا دو دھاری موضوع ہے۔ پاکستان کے عام لوگوں کی معاشی صورت حال کو دیکھیں تو پہلے سے کہیں زیادہ سماجی کاموں اور امداد کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ساتھ غربت کم کرنے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امداد جمع کرنا اور پھر اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کرنا یک پیچیدہ مرحلہ ہے اور کبھی کبھی ایک ٹرک جیسی امداد پر بھی وہی صورت حال ہوتی ہے جیسا نقشہ آپ نے کھینچا ہے۔ بجائے اس کے لوگ اپنی امداد تجربہ کار اداروں کو دیں جو اس کی تقسیم اور ترسیل کا انتظام سنبھالیں اور کراچی سمیت پورے پاکستان میں ایسے کئی ادارے موجود ہیں جن پر بھروسہ کیاجاسکتا ہے۔ آج کل کی صورت حال میں نہ صرف یہ کہ اس طرحکا ہنگامہ برپا ہوگا بلکہ ہوسکتا ہے کہ غیر مستحق افراد تمام امداد لوٹ کر لے جائیں
ہم نعمان صاحب کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اگر خوراک بانٹنی ہی ہے تو اس کی پلاننگ اچھی طرح کرنی چاہیے۔ ویسے ہم خوراک بانٹ کر لوگوں کو بھکاری بنانے کی بجائے ان میں اوزار بانٹ کر انہیں کاروبار کرنے کی طرف مائل کرنا زیادہ اچھا خیال کرتے ہیں۔
جبکہ ہم "خدا توکل کا لنگڑا سہارا” لیکر صرف آج کے دن کی زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔
محترمہ امید ہے الفاظ بدل لیں گی
وہ کیا طریقہ ہوگا کہ اوزار بانٹنے پر کوئی لینے والا بھی ہو
اور لینے کے بعد وہ اسے کباڑ میں بیچنے والا نہ ہو؟
اور کیا یہ بانٹنے کے کلچر کی نئی شکل نہ ہوگی؟
اوزار سے پہلے ہنر سکھانا اہم ہے
صرف حالات سازگار کریں لوگ اوزار بھی خود ڈھونڈ لیں گے اور کام بھی
نعمان صاحب بالکل درست سمت توجہ دلائی ہے۔ تحریر وقت کی آواز ہے۔
باسم صاحب! ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں انگریزی کہاوتیں تو یاد رہتی ہیں لیکن احادیث سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔ ہمیں "میگنا کارٹا” تو نظر آتا ہے لیکن "میثاق مدینہ” کو دنیا کا پہلا بین الاقوامی معاہدہ سمجھنے سے ہمارا ذہن انکاری ہو جاتا ہے۔ قوم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ غلامی کس قدر احساس کمتری پیدا کرتی ہے؟ یہ گداگری بھی غلامی کے اسی احساس کمتری کی پیدا کردہ ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس معاملے میں خواتین کچھ زیادہ ہی بے پروا واقع ہوئی ہیں، ایک خاتون بلاگر ہیں جو ہر وقت اللہ میاں سے لڑتی رہتی ہیں، ایک ان خاتون نے توکل علی اللہ کو ہی "لولا لنگڑا” قرار دے دیا۔ اللہ رحم کرے۔
ابو شامل، میں نے اسے لنگڑا بہانہ اس لئیے کہا ہے کہ اونٹنی کو اللہ توکل پر چھوڑنے سے پہلے اسے رسی ڈال دینی چاہئیے۔ یہی ارشاد نبوی ہے۔
آپ اگر غلامی کے غم سے باہر نہیں آنا چاہتے تو اپنے آقاءووں کی تمام چیزیں اپنی زندگی سے باہر کر دیں۔ انگریزی کے مقولوں کا حوالہ دینا بھی کیا اب کافر و مسلمان کی نشانی میں ڈالنا چاہیں گے،۔
وہ لوگ جو ہر وقت غلامی کے اسباب ڈھونڈتے اور انکا سرا صرف اور صرف مذہب سے جوڑتے ہیں۔ خدا انکے دلوں کو بھی نرمی دے تاکہ وہ اسکے حل بھی تلاش کریں۔
اور ہاں خواتین کی بے پرواہی تو آپ کو بہت کھٹک رہی ہے لیکن کبھی اطمینان سے جائزہ لینے بیٹھئیے گا کہ قوم کو اس صورت حال تک پہنچانے میں کس خاتون کا حصہ ہے تو شاید ایک بھی نام نہ نکال پائیں گے۔ آج جو عدم برداشت، علاقائیت، مذہبی فرقہ بندی، دہشت گردی اور کرپشن اور ان جیسے دیگر اخلاق کا شکار جو قوم نظر آتی ہے ان میں کتنی خواتین کا حصہ شامل ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ لوگوں کو بولنے والی خواتین کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے اب یہ لاپرواہی لگتی ہے۔ رائے اور صائب رائے صرف ایک مرد دے سکتا ہے اور جو خواتین انکی رائے سے اتفاق کرتی ہیں وہ بہت ذمہدار خواتین ہوتی ہیں۔ یہی باتیں اگر کوئ مرد کرے تو پھر آپ سب خاموش ہوجاتے ہیں۔
آپ خود اپنی اداءووں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر کہیں گے تو شکایت ہوگی۔
اور ہاں خدا کے لئیے اسی خدا کے لئیے جس پہ آپ یقین رکھتے ہیں اور میں بھی، مذہب کے اس تنگ نظر فلسفے سے باہر آجائیں۔ مذہب کو بھی آپ نے فرانس کی ملکہ کا وہ کیک بنا دیا ہے جس سے جب کہا گیا کہ کھانے کے لئیے روٹی نہیں ہے تو اس نے کہا کہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ آگے آپ کو پتہ ہے ناں کیا ہوا تھا۔ تاریخ اسی لئے لکھی جاتی ہے اور سنائ جاتی ہے کہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔ امید ہے کہ آپکو فرانس کی ملکہ کا یہ مشہور حوالہ غیر اسلامی نہیں لگا ہوگا۔
ابو شامل تو طے پایا کہ ملک میں مانگنے کا کلچر روکنے کے لئے پہلے بانٹنے کا کلچر روکنا ہوگا؟
محترمہ! وضاحت پیش کرنے کے لیے مشکور ہوں۔ اچھا ہوتا کہ آپ کچھ ایسا کہتیں جس کے لیے وضاحت کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ویسے آپ نے "غلامی کے غم سے باہر آنے” کا جو نسخہ بیان کیا ہے، اسے آپ جیسی جہاندیدہ خاتون کی جانب سے توقع نہ تھی۔ یہ وہ "دلیل” ہے جو ہمیشہ انتہا پسندانہ حد تک آزاد خیال افراد ہم جیسے رجعت پسندوں کو دیا کرتے ہیں۔ خیر رائے کے اظہار کی آزادی ہے۔
مجھے بہت خوشی ہوگی کہ آپ پاکستانیوں کے زوال کے تمام غیر مذہبی اسباب بیان فرما دیں۔ میری معلومات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
خواتین کے حوالے سے آپ نے از خود رائے قائم کر کے میرے بارے میں گمان کر لیا ہے جو مکمل طور پر قیاس پر مبنی ہے۔ اس لیے صرف اتنا کہوں گا کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی مجھ پر پوری نہیں اترتی۔
جس تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کا آپ سبق دے رہی ہیں، مجھے افسوس ہے کہ جب اسی تاریخ کو بیان کیا جاتا ہے تو لبرل لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ یہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں۔
آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے، میں چند مقامات پر آپ کی رائے سے مکمل طور پر اتفاق بھی کر چکا ہوں لیکن یہاں آپ کی رائے سے اختلاف پایا اس لیے کہہ دیا۔ بلاگنگ کی دنیا کا حسن یہی ہے کہ یہاں کسی پر رائے ظاہر کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ امید ہے اس جسارت پر برا نہیں منائیں گی۔
برادر نعمان! جہاں دینے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات موجود ہیں وہیں وہ گداگری کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور واقعہ ہے جس میں انہوں نے ایک شخص کو مانگنے کے بجائے اسے گھر کا محدود سامان بیچ کر لکڑیاں کاٹنے اور انہیں بیچ کر گزارہ کرنے پر راغب کیا۔ اسلام مسلمان کو ایک باوقار شخص کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، نماز جیسے اہم فریضے کے لیے بھی حکم ہے کہ اگر نماز نکل رہی ہو تب بھی دوڑ کو جماعت میں شامل نہ ہوا جائے کیونکہ دوڑنا انسانی وقار کے خلاف ہے۔ بھیک مانگنا تو پھر انسانیت کی بہت بڑی توہین ہے۔
موجودہ صورتحال میں جہاں گداگری پیشہ ورانہ انداز اختیار کر چکی ہے اس میں میری نظر میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ بجائے ان مانگنے والے افراد کو دینے کے چھپ چھپ ان لوگوں کو دیں جو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں میں بھی ہوں گے۔ ان لوگوں کو دینا زیادہ افضل ہے۔ البتہ بڑے پیمانے پر فقیروں میں بانٹنے سے گریز کیا جآئے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسی امداد ہمیشہ غیر مستحقین ہی میں بٹ جاتی ہے اور حقیقی مستحق افراد منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔