ڈین براؤن: گمشدہ علامت بے تکے کوڈ اور گھسی پٹی تھیوریز

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شہر کے باہر چھوٹی سی بستی میں ایک بدصورت بڑھیا رہا کرتی تھی۔ بیچاری بڑھیا کی مصیبت یہ تھی کہ وہ لوگوں میں گھلنا ملنا چاہتی تھی مگر کوئی اسے پسند نہ کرتا تھا۔ اب وہ اس نئے شہر میں آئی تھی اور یہ سوچ کر کہ لوگ اس سے بات کریں گے وہ شہر میں داخل ہوتی ہے۔ مگر کوئی اس کی طرف دھیان بھی نہیں دیتا۔ وہ ایک دکان پر جاتی ہے تو دکاندار اسے نظرانداز کردیتا ہے، وہ ایک راہگیر سے تعارف چاہتی ہے تو وہ اسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ بڑھیا سارے دن کی کوشش کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے۔

اتنے میں شہر کے دروازے سے ایک خوبصورت بانکا سجیلا جوان داخل ہوتا ہے۔ ہر نگاہ اس خوش شکل، خوش لباس نوجوان پر جاٹہرتی ہے۔ دکاندار آگے بڑھ کر اسے خوش آمدید کہتے ہیں، راہگیر اس سے تعارف حاصل کرنے کو منتظر نظر آتے ہیں۔ وہ جہاں جاتا میلے کا سا سماں چھا جاتا۔ ہر کوئی اس کی خوش مزاجی اور خوش لباسی سے مرعوب ہوتا اس کی رفاقت کو بے چین نظر آتا۔ بڑھیا چپکے چپکے اس نوجوان کا پیچھا کرتی رہی۔ یہاں تک کہ شام ہونے کو آئی اور وہ نوجوان شہر سے باہر نکلا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔

بڑھیا اس نوجوان سے جلن محسوس کررہی تھی۔ اسے ان لوگوں پر غصہ آرہا تھا جو اسے نظرانداز کرتے تھے اور خوبصورت، خوش لباس، جوان اور بظاہر خوشحال شخص کے آگے بچھے چلے جاتے تھے۔ اس نے سوچا کہ اسے اس نوجوان سے بات کرنی چاہئے۔ یہ سوچ کر اس نے نوجوان کو آواز دے کر روکا اور قریب پہنچ کر اس سے بولی "میں نے دیکھا کس طرح لوگ تم سے مرعوب اور متاثر ہوتے ہیں کیا وجہ ہے کہ لوگ تمہیں اتنا پسند کرتے ہیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ وہ مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے؟” نوجوان مسکرایا اور بولا ” بڑی بی سب سے پہلے تو یہ بتائیں آپ کون ہیں؟”

بڑھیا بولی۔ "میرا نام سچائی ہے اور میں جگت جگت دوستوں تلاش میں پھرتی ہوں مگر کوئی مجھے زیادہ پسند نہیں کرتا۔”
نوجوان بولا۔” میرا نام افسانہ ہے، میں بھی بستی بستی گھومتا ہوں اور جہاں جاتا ہوں لوگ محھے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ بڑی بی معاف کرنا مگر تم بہت ڈراوّنی، بہت پرانی اور بہت غیردلچسپ دکھائی دیتی ہو اس لئے لوگ تمہیں جاننا نہیں چاہتے۔ تم ایسا کرو میری ساتھی بن جاوّ آج کے بعد میں جہاں بھی جاوّں تم میرے پیچھے چھپی رہنا اور لوگ میرے ساتھ ساتھ تمہیں بھی خوش آمدید کہیں گے۔” تب سے سچائی افسسانے کے پہلو میں چھپ کر انسانی شعور کی گلیوں میں گھوم رہی ہے۔

یہ ایک یہودی لوک داستان ہے، ذرا تھوڑی دیر کے لئے اس کہانی کے ایک مرکزی کردار سچائی کا نام بدل کر جھوٹ کردیں۔ اور پھر کہانی پڑھیں تو بھی میرے خیال میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جھوٹ بھی افسانے کے لبادے میں دلکش معلوم ہوتا ہے۔ یہی بات شاید ڈین براؤن نے سوچ رکھی ہے۔ اور بخدا ہمیں سچائی یا جھوٹ سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں تو دلچسپ داستان سے مطلب ہے۔ مگر افسوس ڈین براؤن کا افسانہ اب کے اتنا دلچسپ نہیں تھا کہ وہ جھوٹ کو چھپا سکتا۔ یوں جھوٹ کی بدصورتی اور کہانی کی مکاری اس طرح عیاں ہوئی کہ پڑھنے والے سخت کوفت کا شکار ہوئے۔

یہ ایک مایوس کن ناول تھا۔ بجائے اس کے کہ ڈین براؤن اپنے لکھے میں کوئی نیا پن لاتا۔ "The lost symbol” پڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہم ڈین براؤن کا پرانا ناول صرف شہر کی تبدیلی کے ساتھ پڑھ رہے ہیں۔ اس بار سائنسی اور تاریخی حقائق اس قدر بوگس تھے کہ ناول بدمزہ محسوس ہورہا تھا۔ فری میسنز کے گرد گھومتی روایتی سازشی نظریات کی کئی کہانیوں کو سائنس کی ایک نئی اور کافی حد تک متنازعہ شاخ نوئٹک سائنسز سے جوڑ کر عجیب و غریب چوں چوں کا مربہ تیار کیا گیا۔

یہ ناول پڑھ کر مجھے اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز یاد آگئی۔ اشتیاق احمد یہ بتاتے تھے کہ سائنس کے وہ علوم جو اب دریافت ہورہے ہیں وہ پہلے ہی قرآن میں موجود ہیں، ایسا ہی کچھ ڈین براؤن کے ناول میں کہا گیا ہے کہ جدید سائنس کے اہم نظریات صدیوں پہلے کے تانترک، سنیاسی باوا اور پادری وغیرہ دریافت کرچکے تھے اور بائبل میں بھی کئی سائنسی رموز چھپے ہیں۔ اس کے علاوہ اشتیاق احمد کے ایک ناول میں بھی ایک ایسے تجربے کا ذکر تھا جس میں ایک قریب المرگ انسان کو ایک ٹیوب میں بند کردیا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اس کی روح دوسری ٹیوب میں قید ہوجاتی ہے۔ایسا ہی ایک تجربہ دی لاسٹ سمبل کی ہیروّن کیتھرین سولومن کرتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اتنے سادہ تجربات سائنسدانوں کو پہلے کیوں نہ سوجھے؟

ناول کا پلاٹ بے تکا تھا اور چند گھنٹوں میں ایک عظیم معمہ حل کرنے کی جدوجہد کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ جدوجہد دسیوں طویل فلیش بیکس پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کیتھرین سولومون کی عجیب تھیوریز سمجھانے کے لئے دسیوں صفحات اور رابرٹ لینگڈن کے من گھڑت تاریخی فیکٹس کو سمجھانے پر اضافی صفحات ضائع کرے گئے ہیں۔ یہ بات تو سب کو ہی معلوم ہے کہ ڈین براؤن کی نام نہاد ریسرچ کس قدر بوگس ہوتی ہے۔ بالکل کنسپائریسی تھیوریسٹس کی طرح وہ من گھڑت حقائق گھڑتا ہے جو قابل گرفت بھی نہیں کیونکہ بہر حال وہ ایک ناول لکھ رہا ہے جو سراسر فکشن ہے۔

شاید یہ ناول اتنا غیر دلچسپ نہ ہوتا اگر ڈین براؤن یہ طے کرلیتا کہ اسے افسانے کے لبادے میں سچ کو چھپانا ہے، جھوٹ کو یا دونوں کو اور کیا افسانے کا لبادہ اتنا دلچسپ ہے کہ ان دونوں بدصورت اور بدہئیت چیزوں کو پذیرائی دلواسکے۔ ناقدین تو پہلے ہی متفق تھے کہ ڈین براؤن اچھا ناول نگار نہیں ہے اب عوام ناقدین کی رائے سے کافی متفق نظر آرہے ہیں۔ نیویارکر پر ایڈم گوپنک کا تبصرہ ڈین براؤن کے انداز کی درست منظر کشی کرتا ہے ان کا خیال ہے کہ رابرٹ لینگڈن ٹین ایجرز کے لئے لکھے جانے والے ایڈونچر ناولز کی سیریز کا کوئی معمولی کردار ہے جو ایک فارمولے کے تحت ہر ناول میں ایک ہی مہم مختلف اسٹیج پر پیش کرتا ہے۔

تبصرے:

  1. مجھے اتفاق ہے۔لگتا ہے ناول گذشتہ فلموں کی مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر بیسٹ‌سیلر بن گیا ہے ورنہ کچھ ایسا خاص نہیں کہ لوگ لائن لگا کر خریدیں۔ ہسٹری چینل نے دو دن پہلے ڈین براؤن کے گذشتہ دونوں ناولوں پر ایک ڈاکیومینٹری بھی دکھائی اور فکشن، سائنس اور حقیقت کے ملغوبہ کے اجزاء کو الگ الگ کر کے بات کافی واضح کی تھی۔ بہر حال جب فکشن کہہ دیا تو اب پکڑ تو نہیں سکتے 🙁

  2. میرا خیال ہے کہ فلمیں اتنی دلچسپ نہیں تھیں جتنا دلچسپ دا ونچی کوڈ ناول تھا جو ہیری پوٹر کے بعد سب سے زیادہ بکنے والا ناول بن گیا ہے۔ یہ والا ناول تو انتہائی غیر معیاری تھا۔

    جاوید صاحب بہت شکریہ ان روابط کے لئے یہ ویڈیوز بھی ڈین براون کے ناول جیسے ہی ہیں۔ لغو باتوں کو سائنس کے ساتھ خلط ملط کرکے اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کی تفریحی کوشش۔

Comments are closed.