پاکستان کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے، اور پڑھے جانے والے روزنامہ جنگ کراچی، اور انٹرنیٹ ایڈیشنز پر انصار عباسی کا مضمون۔ بقول ان کے یہ مضمون ایک پمفلٹ کے مندرجات پر مبنی ہے جو انہیں کسی ذریعے سے ملا۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ پمفلٹ کسی جہادی کی ماں نے تحریر کیا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے ڈین براون اپنے ناول میں سائنس اور تاریخ کے پروفیسرز تخلیق کرتا ہے اور ان کے منہ سے جھوٹی سائنس اور فرضی تاریخ سنواتا ہے۔ افسانہ نگاری ایک بہت دلچسپ فن ہے ہم سب کہاںیاں سناتے ہیں۔ بوڑھے اپنی جوانی کی داستانیں جن میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی عمر رائیگاں نہیں گئی، بچے تصوراتی دوستوں کے قصے اور نوجوان اپنے خیالی محبوبوں کے احوال۔
مگر کچھ چالاک لوگ ہی کہانیوں سے پیسے کما پاتے ہیں۔
ansar abasi kay mazmoon ka link kaam naheen kar raha
جاوید شکریہ۔ لنک درست کردیا گیا ہے۔
جہاد تو اب ایک کماءو انڈسٹری بن گیا ہے۔ جہاں کفار اسلحہ تیار کر کے بیچنے سے لگے ہوئے ہیں اہل ایمان کو۔ وہیں اہل ایمان اپنے ایمان اور جنت کے درمیان بھاءو تاءو کر رہے ہیں۔ اس لوٹ مار میں کون زیادہ سے زیادہ مال بناتا ہے، دنیا اور آخرت اسی کی ہے۔ جذبات میں ہانپنے والے بعد میں صدمے اٹھانے والوں میں رہ جائیں گے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
میں ذاتی طور پر اور میں ہی کیا، بہت سے لوگ ایسے گھرانوں سے واقف ہونگے جنکے سپوتوں کو افغانستان کے جہاد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جب انکے بیٹے ایسے ہی کسی گمنام کار زار میں جان دے رہے تھےگھر والوں کو پتہ تک نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ خدا معلوم وہ لوگ جو دوسرے لوگوں کی سادہ لوحی کو استعمال کرتے ہیں۔ انہیں دوزخ کی کون سی تہوں میں رکھا جائے گا۔
آج کل ایک کہانی "کالا پانی” کے نام سے بھی بڑی ہٹ جارہی ہے اور کالم نگار جن کو عوامی مسائل پر بات کرنے کا یارا نہیں ایسے ایسے افسانے بنا رہے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہوتی ہے کہ خفیہ بجٹ کے صفر کی تعداد اور خفیہ مشن کا ہر گوشہ ان کے علم میں آجاتا ہے اس کے بعد بھی مشن خفیہ رہتا ہے اور خوف کی تجارت چلتی رہتی ہے۔ جس بات سے خوف آتا ہے وہ یہ کہ ڈین براؤن بطور ناول چھپتا ہے اور یہ کہانیاں بطور خبر اور کالم۔
راشد ہمارے کالم نگار ایک بھیڑ چال کے تحت چلتے ہیں۔ جو ایک بہت دلچسپ موضوع ہے۔ لکھنے کے پیشے کو ہمارے یہاں ایک بہت ہی اوپن مارکیٹ سسٹم کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس سسٹم میں لکھنے والا وہی لکھتا ہے جو اس کے خیال میں اخبار میں، مقتدر حلقوں، اور عالمی بازار ضمیر میں اس کی پوزیشن مضبوط بناتا ہے۔
کالے پانی کی فلم اس لئے چلائی جارہی ہے تاکہ عوام کی توجہ حکومت کی ان لائق تحسین کوششوں پر نہ پڑ سکے جو وہ بلوچستان میں قیام امن کے لئے کر رہی ہے۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ خّوف کی تجارت، تو خوف کے لئے عدم اعتماد پھیلانا بہت ضروری ہے۔
آپ لوگ اپنے لحاظ سے بہترین راستے پر چلنے والے ، تمام حقائق سے آگاہی رکھنے والے، اور پاکستان کے بہترین خیر خواہ تصور کرتے ہیں، جب کہ آپ کے پاس بھی اپنے انکشافات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ آپ بلاگ پر تحریر لکھتے ہیں، پھر آپ بھی ایک طرح سے کالم نگار ہی ہوے نا، اور آپ دوسرے کالم نگاروں کو جھوٹا کہ رہے ہیں، الزامات لگا رہے ہیں، سوال تو یہ ہے کہ اصل حقائق سے آگاہی کس طرح حاصل کی جائے۔
جس طرح وہ لوگ جہاد کو غلط رنگ دے رہے ہیں، آپ جہاد کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں، جبکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے۔
کیا آپ جہاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں؟
اگر بہت سارے افراد جہاد کے متعلق بہکا کر خفیہ تنظیموں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیے، تو ہو سکتا ہے بہت سے ایسے بھی ہوں جن کا جہاد راہ حق میں قبول کر لیا گیا،
جبکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے۔
aap kab aarahy hain jihad karnay? jihad aapkay mulk main hu raha hai aur aap saudi arab bethay hain?
یاسر ۔ حقائق اور کہانیوں میں فرق ہوتا ہے۔ جب آپ ایک گمنام خاتون کے گمنام شہید بیٹے اور اس کے لکھے خط کو چھاپ رہے ہوتے ہیں تو دراصل آپ ذمے دارانہ صحافت کا فریضہ انجام نہیں دے رہے ہوتے بلکہ یہ پروپگینڈہ کہلاتا ہے۔ اپنے الفاظ نامعلوم کرداروں کے منہ سے کہلوانا افسانہ نگاری ہے صحافت نہیں۔
یاسر کبھی آپ نے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے کہ افغان جہاد میں مسلمانوں کا جذبہ جہاد ابھارنے کا لٹریچر کہاں کہاں سے چَھپ کر آتا تھا؟ مال غنیمت سے کن لوگوں نے فیض اٹھایا اور جہاد کا ایندھن کون لوگ بنے؟ کس کی جنگ تھی، کس نے لڑی اور آج بھی کس کی جنگ ہے اور کون لڑرہا ہے۔ کون مار رہا ہے اور کون مروا رہا ہے اور کون مر رہا ہے۔ لیکن موضوع بحث جہاد نہیں بلکہ صحافت کے نام پر افسانہ نگاری ہے۔
عید کے تیسرے دن ایک دور کی رشتہ دار بہن سے ملنے پہنچے تو خاصی پریشان نظر آئیں وجہ پوچھی تو بولیں کہ ان کا بیٹاجو 20،21سال کا نوجوان ہے اور نیوی میں سیلر ہے کا دو ماہ سے دماغ خراب ہوگیا ہے صاحبزادے آئے تو چہرے پر شرعی داڑھی مگر نہ لہجہ شرعی نہ انداز ہر بات کا جواب پھاڑ کھانے والے انداز میں،باتیں شروع ہوئیں تو جناب نے سب کو کافر مشرک اور واجب القتل کہنا شروع کردیا جہاد فرض ہے مین جہاد پر جاؤں گا حکومت کافروں کی دوست ہے حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہیئے عورتیں مردوں کی تقریبا غلام ہی ہیں ماں باپ اسلام سے بے بہرہ ہیں اور ابا جان ٹیوی پر خبریں بھی کیوں دیکھتے ہیں اس میں ننگی عورتیں(یعنی بغیر دوپٹے) خبریں پڑھتی ہیں وغیرہ وغیرہ،میں حیران اور پریشان ان کی یہ تقریر سن رہا تھاسب سے بڑا صدمہ جو مجھے ہوا وہ یہ تھا کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے اور اپر مڈل کلاس کا بچہ وہ بھی اردو اسپیکنگ وہ اس طرح کی باتیں کرے گا یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھاکیونکہ میرا خیال تھا کہ اس طرح کا جاہلانہ اسلام سرحد اور پنجاب کے رہنے والے کم پڑھے اورکم وسائل یافتہ لوگوں میں ہی موجود ہے اور انہیں ملا جو بتا دیتا ہے وہ اسے ہی اسلام سمجھ کر اس پر عمل شروع کردیتے ہیں،خیر مینے ان صاحبزادے سے کہا کہ بھائی تم تفسیرابن کثیر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا خود سے مطالعہ کرو اور دین کو خود سے سمجھو مزید سمجھ میں نہ آئے تو کسی مستند عالم سے رجوع کرو صاحب زادے فرماتے ہیں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے،مینے کہا دنیا بھر کی بکواس سننے اور کرنے کا تو تمھارے پاس وقت ہی وقت ہے اور جو کام کی بات بتائی جارہی ہے اسے کرنے سے تم انکاری ہو اس سے بڑی جاہلیت اور کاہلی اور کیا ہوگی،رہی جہاد کی بات تو بھائی تم تو ہو ہی نیوی میں جہاد تو تم کرہی رہے ہو، کہتے ہیں یہ فوج یہ فوج جہاد کرے گی یہ تو ہے ہی کافروں کی غلام ،تو بھائی تم اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے جواب مین خاموشی،پھر بولے علم بھی کوئی زیادہ ضروری نہیں ہوتا اللہ چاہے گا تو گھر بیٹھے ہی حاصل ہو جائے گامینے کہا اللہ نے تو فرمایاکہ علم کا حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض کیا گیا ہےبلکل اسی طرح جس طرح نماز فرض کی گئی ہے اور وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ میں صرف اس کی مدد کرتا ہوں جو اپنی مدد آپ کرنا چاہے،اس کے علاوہ تمھیں پہلے اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا چاہیئے ،بگڑ گئے بولے آپ نے اس جہاد کو چھوٹا بنا دیا جو ہمارے نبی نے کیا اور نفس کے جہاد کو بڑا کردیا مینے کہا میرے بھائی نفس مظبوط ہوگا تب ہی تو گولیوں اور بموں کی بوچھاڑ میں کھڑے رہ پاؤ گے ورنہ میدان جنگ میں اترنا آسان ہوتاہے وہاں استقامت کے ساتھ کھڑے رہنا مشکل ہوتا ہے اور جو میدان سے پیٹھ موڑ کر بھاگا اس کی تو بخشش ہی نہیں ہے،اور ہمارے نبی کو اپنے نفس پر مکمل کنٹرول تھا اللہ کی مہر بانی سے پھر بھی 40 سال بعد ان کو نبت عطا کی گئی اور وہ فورا ہی تلوار لے کر کافروں کو مارنے نہیں نکل کھڑے ہوئے،جب اخلاق ،عمل اور تبلیغ کام نہیں آئی تب تلوار استعمال کی گئی پھر تمھارے اخلاق کا تو یہ عالم ہے کہ باقی دنیا چھوڑو تم تو ماں باپ سے بھی نرمی اور محبت سے بات نہیں کرتے جبکہ حکم تو یہ ہے کہ ماں باپ اگر کافر اور مشرک ہوں تو بھی انکو اف نہ کہو،پھر خواتین پر بات شروع ہوئی کہ عورت کو صرف مرد کے کہے پر چلنا چاہیئے اس کی کوئی مرضی کوئی اختیار نہیں جب اس موضوع پر سمجھانا شروع کیا تو بار بار ایک ہی بات آپ صرف یہ بتائیں مرد کو عورت پر برتری ہے یا نہیں جواب دیا بلکل ہے مگر صرف ایک درجہ اور وہ اس لیئے کہ وہ گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے معاملات میں بہتر سمجھ بوجھ حاصل کرلیتا ہے اور گھر کا کفیل بھی ہوتا ہے لیکن یہ کوئی اقا اور غلام کا رشتہ نہیں ہوتا بلکل اسی طرح جس طرح ماں کا درجہ اولاد سے کہیں اوپر ہے مگر اولاد اس کی غلام نہیں بن جاتی کے اس کے تمام حقوق سلب کر لیئے جائیں،میاں بیوی میں محبت اور موؤدت کا رشتہ ہوتا ہے،آقا اور غلام جیسا نہیں،پھر بولے اچھا بتائیں عورت امام بن سکتی ہے نکاح پڑھا سکتی ہے مینے کہا بلکل اگر کوئی ایسا مجمع ہے جہاں سب مرد جاہل ہیں اور صرف ایک عورت ہے جو دین کا علم رکھتی ہے تو وہ آڑ میں کھڑے ہوکر یا باپردہ ہوکر امامت کرسکتی ہے اور نکاح کیا ہے ایک مرد اور عورت کا دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول،اگر دو نہیں تو چار عورتیں گواہ بنالو، غرض جتنا وقت تھا ان صاحبزادے کے ساتھ دماع کھپاتے گزر گیا اور آتے وقت تک ان میں کچھ مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں بھی آئیں مگر تفسیر اور احادیث پڑھنے پر پھر بھی راضی نظر نہ آئے،
میں خوفزدہ ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کی تن آسانی اور چرب زبانی اور کیا کیا گل کھلائے گی اور یہ کون بدبخت ہے جو اس طرح کے زہریلے بیج اسلام کے نام پر اس زمین میں بو رہا ہے اور ایسے کتنے ہی نوجوان ہوگے جو اس پروپگینڈے کی نظر ہو کر نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے اور ملک کی بدنامی اور رسوائی کا باعث بنیں گے پتہ نہیں اس ملک کی انٹیلیجینس ایجینسیاں ایسے لوگوں پر گرفت سخت کیوں نہیں کررہیں کیا پانی سر سے اونچا ہونے کا انتظار ہے؟
بہت خوب عبداللہ تم تو انصار عباسی سے بہتر لکھنے لگے ہو۔
@Abdullah:
lagta hai yeah sahibzaaday yasir imran say mutassar hain 🙂
نعمان اور جاوید مجھے افسوس ہے کہ میری بات آپ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی،میں اس کالم کے حوالے سے ان اسٹیریو ٹائپ لوگوں کاذکر کررہا تھا جو اپنے مطلب کا اسلام اور جہاد نوجوانوں کے دماغوں میں بھر کر انہیں راستے سے بھٹکانے کی کوشش کررہے ہیں،
یاسر سے متاثر ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،بلکہ ان کے تبصرے پر بھی ایک تبصرہ لکھا تھا جس میں جاوید کی بات کی تائید کی تھی مگر یہ لائٹ اور نیٹ ان کا اللہ بھلا کرے جو وہ پوسٹ نہیں ہوپایا، پھر میں مصروف ہوگیا اور بات رہ گئی،
Abduallah main un sazibzaaday ka zikar kar raha tha jin say aap ka mukalma hua.
جاوید صاحب
مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہے اور کیا نہیں، آپ اپنی زندگی اپنے مسایل پر توجہ دیجیے۔ ہو سکتا ہے کوی آپ سے بھی متاثر ہو جاوے
نعمان صاحب
بلاشبہ آپ درست فرما رہے ہیں کہ اپنے الفاظ نامعلوم کرداروں کے منہ سے کہلوانا افسانہ نگاری ہے ، مگر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ الفاظ عباسی صاحب کے اپنے تشکیل کردہ ہیں۔ اور اس خط کا کوی وجود نہیں۔
راشد صاحب
میں جانتا ہوں کہ جہاد کے لیے پاکستانی، سعودی اور دوسرے کچھ مسلمان ملکوں کے باشندوں کو استعمال کیا گیا
اور کس نے استعمال کیا یہ بھی جانتا ہوں، معلومات کے جو سورسز آپ کے پاس ہیں وہ دوسروں کو بھی دستیاب ہیں۔
یاسر عام طور پر کریڈیبل صحافی اس قسم کے کتابچے اپنے کالمز میں نہیں چھاپتے۔ بازار میں، پاکستان کی مساجد میں، اور ملک کے ہر نکڑ پر آپ کو اس قسم کے کتابچے تقریبا مفت فروخت ہوتے نظر آتے ہیں ان میں سے کئی کتابچوں میں بڑے حیرت انگیز دعوے کرے جاتے ہیں۔ مگر کوئی صحافی ان کا حوالہ اس لئے نہیں دیتا کیونکہ آپ ان کے لکھنے والوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ پروپگینڈہ لٹریچر کہلاتا ہے اور ساری دنیا میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات طے شدہ سمجھی جاتی ہے کہ ان کتابچوں میں بیان ہونے والے واقعات و کردار فرضی ہوتے ہیں اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے یہ کہانیاں گھڑی جاتی ہیں تاکہ انہیں اپنے مقاصد کے لئے تیار کیا جاسکے۔
کسی ذمے دار صحافی کا ایسے کتابچے اپنے کالم کی بنیاد بنانا ایسا ہی ہے جیسے اس پروپگینڈے کو سپورٹ کرنا۔ اس لئے ہم اس افسانے کا خالق انصار عباسی صاحب کو ہی قرار دے سکتے ہیں کیونکہ ان کی سورس بالکل کریڈیبل نہیں ہے اور لوگ اسے افسانے کو محض اس لئے پڑھیں گے اور قابل توجہ سمجھیں گے کہ یہ ملک کے سب سے زیادہ چھپنے والے اخبار میں شائع ہوا ہے۔ اور ایک بظاہر نامور صحافی نے اسے تحریر کیا ہے۔ یوں اس مضمون کا سب سے کریڈیبل ماخذ عباسی صاحب ہی ہیں اس لئے یہ ان ہی کی تحریر سمجھا جائے گا۔ وہ خود اپنے مضمون میں کہہ رہے ہیں کہ انہیں یہ کتابچہ کہیں سے ملا ہے اور یقینا ہر کوئی بازار سے جاکر یہ کتابچہ نہیں خرید سکتا۔ کیونکہ اس کا وجود ہی نہیں ہے۔