نئے جہادی لٹریچر کے جواب میں اردو بلاگستان کے متنازعہ تبصرہ نگار عبداللہ نے ایک تبصرہ شامل کیا ہے۔ یہ تبصرہ انصار عباسی کے کالم کی صنف یعنی افسانوی، تخلیقی، پروپگینڈہ کی طرز پر ہی لکھا گیا ہے۔ عبداللہ کے تبصرے میں بھی شوق شہادت سے سرشار ایک نوجوان اور ایک ماں کے کردار ہیں۔ احادیث اور قرآن کا ذکر ہے۔ اگر نعمان کی ڈائری ایک بلاگ نہ ہوتا بلکہ تخلیقی ادب کی تدریس کا حلقہ ہوتا تو میں آپ سب کو ایک مشق دیتا کہ اسی صنف میں ایک پوسٹ لکھیں۔ موضوع کوئی بھی متنازعہ رکھ لیں اور کردار بھی اپنی پسند کے منتخب کریں۔
ایک اخباری مضمون کا کینوس ایک باقاعدہ افسانے کے کینوس سے بہت چھوٹا ہوتا ہے آپ کے پاس محدود تعداد میں اخباری جگہ ہوتی ہے آپ کے ایڈیٹر کو وہ کالم اس میں فٹ کرنا ہوتا ہے۔ لحاظہ یہاں آپ کو بہت ہی احتیاط سے کردار و واقعات چننا ہوتے ہیں۔ ایک اچھے افسانے کی طرح آپ کے افسانے نما کالم کو ایک انجام تک پہنچنا ہوتا ہے جس کی منطق قاری کو سوچنے پر مجبور کرنا ہوتی ہے اور آپ کے کرداروں سے ہمدردی اور ان کی جدوجہد پر اپنی ایک رائے قائم کرنا ہوتی ہے۔ کامیاب افسانوی کالم کا معیار یہ ہے کہ قاری افسانوی کالم نگار کے موقف سے تقریبا متفق ہوجائے۔ چونکہ جگہ محدود ہوتی ہے اور کردار تخلیق کرنے اور واقعات بیان کرنے کے بعد دلائل کے لئے جگہ نہیں بچتی تو احادیث و قرآن کا سہارا لیا جائے تاکہ اگر کوئی اختلاف بھی کرنا چاہے تو آپ اسے یہ کہہ سکیں کہ تم خود کو قرآن و حدیث سے بالاتر سمجھتے ہو۔ اگر وہ ہاں کہے تو واجب القتل۔ نہ کہے تو پھر اسے قائل ہونا ہی پڑے گا۔
واضح رہے کہ اس پوسٹ اور اس سے پچھلی پوسٹ کا مقصد جہاد یا دہشت گردی پر بحث کرنا نہیں بلکہ تخلیقی ادب کی یہ نئی صنف ہمارا موضوع سخن ہے۔ میرا خیال ہے اس صنف کو باقاعدہ ادب تسلیم کیا جانا چاہئے اور اس میں ہونے والے کام کو ایک نئے زمرے کے تحت جمع کیا جانا چاہئے۔ بعض کالم تو تخلیق و ہنر کی بہت ہی خوبصورت مثال ہوتے ہیں۔ افسوس اتنا عمدہ تخلیقی مواد بطور کالم فروخت ہورہا ہے اور اگلے دن اس میں چنے بک رہے ہوتے ہیں۔
جی بالکل اس تخلیقی مواد کا تحفظ ہونا چاہیے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں اخباری کالمز کے مجموعے چھاپنے کا رواج بہت پہلے سے زور پکڑچکا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے کالم کا افسانہ ہونا بہت ضروری ہے چاہے اس کے لیے ایک آدھے کردار تخلیق کرلیے جائیں، دو چار ماورائی تعلقات گھڑ لیے جائیںاور پانچ دس بیرونی سفر بھی کر لیے جائیں تو مضائقہ نہیں ورنہ حالات حاضرہ پر لکھے گئے معروضی کالمز کون کافر کتابی صورت میں خرید کر پڑھے گا۔
یہ آپکی تھیم بہت سادہ ہو گئ ہے۔ سادگی اچھی چیز ہے۔ لیکن اتنی زیادہ سفید اسکرین آنکھیں بالکل دھندلا دیتی ہے۔ آپ نے برفیلے علاقوں میں گلاسز لگانےکے متعلق سنا ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ کیوں ایسے علاقوں میں چشمہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔
راشد صاحب کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہ معروضی کالمز لکھنے کے لئیے خاصی تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ اس طرح کے کاموں میں یہ آسانی رہتی ہے کہ آپ عام کرداروں کی زبانی اپنی مرضی کی کوئ بات بھی کہلوا سکتے ہیں۔ ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ جب آپ روزمرہ کی زندگی سے واقعات نکال کر انکی مثالیں بناتے ہیں تو پڑھنے والے اس میں نہ صرف دلچسپی لیتے ہیں بلکہ انہیں زیادہ یاد رہتا ہے۔ یہ بالخصوص ان قارئین کے لئیے ہوتا ہے جنکا اپنا مشاہدہ اور تجزیاتی اپچ کم ہوتی ہے۔ یا وہ خاصے تن آسان ہوتے ہیں۔ ظاہری سی بات ہے کہ جس ملک میں تعلیمی شرح تیس فیصد سے بھی کم ہو وہاں یہ طریقہ مقبول رہے گا۔ خود میں ٹیچنگ کے دوران اس طریقے کو استعمال کرتی رہی ہوں اور اسکے خاطرخواہ نتائج نکلتے ہیں۔ بس اوزار صحیح سے استعمال کرنا چاہئیں۔ ورنہ کبھی کبھی خود اپنے دام میں صیاد آجاتا ہے۔
خیر اس حوالے سے اپنی وضاحت تو میں پچھلی پوسٹ پر کر ہی چکا ہوں مزید کوئی بات اگر آپ لوگ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں اب آگے سنیئے دو تین دن بعد ایک نئے نئے نوجوان عالم جنہوں نے اپنی ذندگی کے گیارہ سال اسلام سیکھنے میں لگائے اور اب بی کام کی تیاری کررہے ہیں ان سے ملاقات ہوئی یہی باتیں نکلیں میری اکثر باتوں کی تو انہوں نے تائید کردی مگر جب مینے ان سے سوال کیا کہ یہ جو ہر ملا اٹھ کر کسی نہ کسی کو واجب القتل قرار دے دیتا ہے یہ کونسا اسلام ہے تو کہنے لگے ہر شخص نہیں مگر مرتڈ واجب القتل ہے اور اگر کوئی عام مسلمان جو خود عبادات کا پابند بھی نہ ہو اٹھ کر کسی مرتد یا قادیانی کو قتل کردے تو اس سے قصاص بھی نہیں لیا جائے گا اس بات نے تو میرے رونگٹے کھڑے کروادیئے مینے ان سے کہا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جب ایک مسلمان شخص خود وہ سارے کام کرتا ہے جس سے اللہ غضبناک ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جن کے لیئے کہا ہو کہ یہ یہ کام جس نے کیئے وہ ہم میں سے نہیں ہے اس کا کیا مطلب ہوا کہ وہ مسلمان ہی نہیں ہے اب ایسا کلمہ پڑھنے والا نام کا مسلمان اٹھ کر قادیانیوں یا اسی طرح کے کسی دوسرے شخص کو قتل کرتا پھرے تو کوئی بات ہی نہیں،میں تو اس بات کو ہرگز تسلیم نہیں کروں گابلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ کسی مومن کو بھی یہ حق حاصل نہیں اور کوئی مومن کبھی ایسا کام کرنا پسند نہیں کرے گا،
بولے نہیں حکومت وقت جس کا حاکم مسلمان ہو وہ ان کو تین دن کی مہلت دے اور اگر پھر بھی وہ واپس اسلام پر نہ آئیں تو ان کا قتل کرنا واجب ہے مینے کہا جس ملک میں کوئی سوشل جسٹس نہ ہو اسلام کے نام پر طرح طرح کے تماشے جاری ہوں وہاں آپ عالم اور ملاؤں کی اس طرح کی باتیں صرف اور صرف آگ لگانے کے مترادف ہے اس طرح تو آپلوگوں نے لوگوں کو قتل کرنے کاکھلا لائسنس دے دیا ہے،بمشکل تمام وہ اس بات پر قائل ہوئے کہ پہلے ملک میں وہ سوشل جسٹس قائم ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قائم کر کے گئے تھے پھر صحیح اسلام کی تبلیغ ہو عمل کے ساتھ باقی باتیں اس کے بعد اتی ہیں تو یہ ہے آج کا پاکستان اور اسلام
باقی بات میرے متنازعہ ہونے کی تو وہ تو نعمان آپ بھی ہو:)
عبداللہ یہ پوسٹ افسانوی کالم نگاری کے بارے میں ہے جہاد یا اسلامی قوانین کے بارے میں نہیں۔ میرے لئے یہ اطلاع خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ میں متنازعہ ہوں۔