صدر بھگاؤ ملک بچاؤ پروپگینڈہ

روزنامہ جنگ پر سلیم صافی لکھتے ہیں:

زرداری صاحب کے سیاسی گناہوں کی فہرست بڑی لمبی ہے لیکن یہ جو این آراو کی چھری سے انہیں ذبح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘ اسے زیادتی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ؟ آخر این آر او میں ان کا کیا کردار ہے؟ ۔ یہ ڈیل تو بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے مابین ہوئی۔ تب تو زرداری صاحب کھڈے لائن لگے ہوئے تھے لیکن تماشہ یہ ہے کہ کوئی بی بی کو الزام دے رہا ہے اور نہ پرویز مشرف کواور سب کے سب آصف زرداری کو نشانہ بنارہے ہیں ؟ سوال یہ ہے کہ یہ شور اس وقت کیوں بلند نہیں ہوا جب این آراو کے تحت بی بی اور دیگر لوگ پاکستان آرہے تھے؟ میاں نواز شریف نے اس این آراو زدہ پارٹی کے ساتھ اتحاد کیوں کیا؟ جب زرداری صاحب ایک مشکوک ول (Will) کے تحت پارٹی قیادت سنبھال رہے تھے ‘ تو ان کے ان مخالف عقابوں نے اس وقت احتجاج کیوں نہیں کیا؟ پھر جب وہ گارڈ آف آنرز کے شوق میں پارٹی قیادت کے ساتھ ملکی صدارت سنبھالنے جا رہے تھے‘ تو ان کے ناقدین نے تب یہ قیامت کیوں برپا نہیں کی؟تب تو ہر کوئی ان کی صلاحیتوں اور سیاسی چالوں کی تعریفیں کررہا تھالیکن اب کیری لوگر بل کے بعد ہر ایک کو زرداری صاحب کے جرائم یاد آگئے ہیں ۔جب وہ صدارتی امیدوار بن رہے تھے ‘ تب بھی بین الاقوامی میڈیا میں ان کو مسٹر ٹن پرسنٹ کے القابات سے یاد کیا جارہا تھا‘ سوال یہ ہے کہ اس وقت ہم نے مزاحمت کیوں نہیں کی؟ آخر اس ملک میں ہٹانے اور بٹھانے کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ ملک کے دیگر حقیقی اور دائمی مسائل کو نظرانداز کرکے‘ایک ہی ایشو کو اٹھا کر ‘ اسے قوم کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے کا یہ گندا کھیل آخر کب ختم ہوگا؟

اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں۔

ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ پچھلی حکومت میں ایسے وزراء بھی بیٹھے تھے جن کے خلاف عدالتوں میں کیسز چل رہے تھے ؟۔ میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے ‘ تب بھی ان کے خلاف عدالتوں میں کئی مقدمات پینڈنگ تھے ۔ عدالتوں کا ریکارڈ نکالا جائے تو قاضی حسین احمد سے لے کر عمران خان تک ‘ کوئی پاکستانی لیڈر ایسا نہیں ملے گا جس کے خلاف مقدمات درج نہ ہوں۔ کم از کم دفعہ ۴۴۱ کی خلاف ورزی کا کیس تو ہر ایک کے خلاف درج ہے ۔پھر تو اس ملک میں کوئی بھی کسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم پیپلز پارٹی کے این آر او کا ذکر کرتے ہیں تو میاں نواز شریف کے این آر او کے بارے میں کیوں خاموش ہیں ؟۔ انہیں تو بعض مقدمات میں سزا بھی ہوئی تھی لیکن پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں ان کے تمام مقدمات ختم ہوئے اور وہ خوشی خوشی سعودی عرب چلے گئے ۔ فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ ڈیل بے نظیر بھٹو نے بھی کی اور میاں نواز شریف نے بھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نے باہر جانے کے لئے اور دوسری نے ملک میں واپس آنے کے لئے کی ۔ ایک نے اس کے نتیجے میں سیاست سے آوٹ رہنے کی شرط مان لی اور دوسری نے اسے سیاست میں داخلے کا ذریعہ بنایا ۔ اب ایک این آر او کے بارے میں چیخ و پکار اور دوسرے کے بارے میں خاموشی‘ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟

آج ہی کے جنگ کے ادارتی صفحے پر ہی دوسرا مضمون محمود شام صاحب کا ہے۔ ان کے مضمون سے اقتباس پیش کرتا ہوں:

دنیا بھر میں آئین بنانے والے صدر مملکت کو اگر عدالتوں میں طلب کئے جانے سے استثنیٰ دینے کی شقیں شامل کرتے رہے ہیں۔ اس میں مملکت کا تقدس اور احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہ خیال ہوتا ہے کہ مملکت سب کی ماں ہے۔ سب کے نزدیک قابل عزت ہے۔ اس کے سلسلے میں کوئی اختلاف، کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی سربراہی پر جو شخصیت فائز ہو اس کا احترام اور وقار بھی اسی لئے ہونا چاہئے۔ مملکت کے لئے۔ اس کی ذات کے لئے نہیں۔ اس کی شخصیت کو اگر ہدف بنایا جائے گا تو ایک طرف تو مملکت بھی زد میں آئے گی کیونکہ سربراہ تو وہی ہے اور وہ اس ایوان میں بھی مقیم ہے جو سب کے نزدیک قابل قدر ہے، جو ملک کی عظمت اور بلندی کا نشان ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ملک کی تاریخ میں کئی بار ایسے لوگ بھی سربراہ بن گئے جو آئین اور قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے نہیں بلکہ بندوق کے زور پرصدر بنے۔ اس لئے ایوان صدر بھی ان کی شخصیت کی طرح متنازع ہوتا رہا۔ اس سے مملکت کو بھی سنگین نقصانات پہنچے۔ صرف عہدہ صدارت ہی نہیں، فوج بھی مطعون ہوتی رہی۔ مسلح افواج کو بھی جو محبت، وقار اور احترام میسر آنا چاہئے، وہ ان کے حصے میں بھی تاریخ کے ان ادوار کی طرح نہیں آسکا لیکن جب ایک شخصیت آئین اور قانون کے تمام مطلوبہ تقاضے پورے کرتے ہوئے صدر مملکت بننے کے لئے میدان میں آرہی ہو تو کافی وقت ہوتا ہے کہ اگر اس شخصیت کے بارے میں کوئی الزامات، شکوک و شبہات، شواہد ہوں تو ان کی بنا پر اعتراض کیا جائے اور اسے صدر جیسے مقدس عہدے پر آنے سے روکا جائے۔ اگر یہ مہلت استعمال نہیں کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بارے میں ایسے شواہد میسر نہیں تھے جو اسے اتنے اہم ترین منصب کے لئے نااہل قرار دے سکتے لیکن تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب ہم کسی وجہ سے بھی کسی شخصیت سے بیزار ہوجاتے ہیں تو اس کے حوالے سے ایک طرف تو آئین، تہذیب، شائستگی، روایات سب کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری طرف اس کے علاوہ سب کو پارسا، باکردار اور ہرعیب سے بالاتر خیال کرنے لگتے ہیں بلکہ ان کی برائیاں بڑی بڑی بھی چھپاتے ہیں جبکہ اپنے ہدف کی چھوٹی چھوٹی خامیاں بھی بڑھ چڑھ کر اچھالتے ہیں۔ مملکت کے سربراہ کو آئین بنانے والے نے صدیوں کی سوچ کے بعد جو استثنیٰ دیا، اس کا مطلب صرف عدالت میں طلبی سے مستثنیٰ کرنا نہیں تھا بلکہ اس کی روح یہ ہے کہ ملک بھر میں اس ادارے کا بھرم رکھا جائے۔ اگر کوئی خامیاں ہیں بھی تو انہیں دور کرنے کا مشورہ دیا جائے نہ کہ ان کو ضرورت سے زیاد بڑھا کر طبل جنگ بجادیا جائے۔ صرف عدالتیں ہی نہیں تمام سرکاری محکمے، میڈیا، معاشرہ بھی اس استثنیٰ کو سامنے رکھیں تو مملکت کا تقدس برقرار رہ سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اتنا ہنگامہ برپا کردیا جائے کہ عدالت بھی استثنیٰ کو ترک کردے۔ صدر یا سربراہ دنیا بھر میں فرشتے نہیں ہوتے۔

یہی سوال مجھے بھی تنگ کرتا ہے۔ کہ ہمارے ذمے دار صحافی جناب "اسٹیبلیشمنٹ کے مطابق” اور جناب "ایجنٹ عباسی” صاحب تب کہاں سورہے تھے جب این آر او پیش ہوا؟ صدر پاکستان کے انتخاب کے وقت یہ ذمے دار حضرات کہاں سورہے تھے اور کیوں اس وقت انہوں نے این آر او اور زرداری کی اہلیت پر مباحثے نہ چھیڑے۔ اور یہ سب کیری لوگر بل کے بعد ہی کیوں شروع ہوا؟ ان صحافیوں کا ضمیر بہت ہی سینکرونائزڈ ہے ایک ساتھ جاگتا اور سوتا ہےیہ ایک جیسے موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں اور ایک جیسے موضوعات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ یہ دوسرا صدر پاکستان ہے جو اس گروہ کے شدید پروپگینڈے کا نشانہ بن رہا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ یہ دوسرا صدر بھی ان کے پے در پے حملوں کی تاب نہ لاکر شکست تسلیم کرلے۔ یہ اس صدر کی شکست نہیں ہوگی۔ یہ پاکستان کے پارلیمان اور عوام کے ووٹ کی شکست ہوگی۔

ملک جن حالات کا شکار ہے ان سے نکلنے کا راستہ حکمران بدلتے رہنا نہیں ہے۔ بلکہ اسٹیبلیشمنٹ کی حکمرانی کو ختم کرنا ہی اس مسئلے کا حل ہے اور زرداری کی صدارت قائم رہنا پاکستان کے جمہوری مستقبل اور استحکام کے لئے ازحد ضروری ہے۔ اگر پاکستان زرداری کے اب تک کے مبینہ ہزاروں کھرب روپے کی کرپشن برداشت کرچکا ہے تو دو ایک سال مزید ان کے اقتدار میں رہنے سے کوئی قیامت نہیں آجائیگی۔

تبصرے:

  1. یہاں گو گو اور کم کم کے نعرے لگانے کے شوقین حضرات کثرت سے پائے جاتے ہیں اس لیے آپ آسمان سے کسی فرشتے کو بھی لا کر مسند اقتدار پر بٹھا دیں ایک مہینے بعد گو فرشتے گو کے نعرے لگنے شروع ہوجائیں گے۔۔ صحافی مافیا کی تو خیر جانے دیں یہ اس وقت اپنی پوزیشن کو جس بری طرح استعمال کررہے ہیں وہ باعث شرم ہے۔۔ انہوں نے پاکستان کے بدترین دشمنوں کو عوام کی نظر میں ہیرو بنا کر رکھا ہوا ہے۔

  2. نذیر ناجی نے (کہ بندہ شُہدا ہے لیکن بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے) بی بی کی آمد سے پہلے لکھا تھا کہ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ ہے۔ سیاسی حکومت کی بحالی کے بعد اس کا ہدف پیپلز پارٹی ہوگی کیونکہ نون لیگ اور پی پی کا ووٹ بینک ہی اختلاف کی بنیاد پر ہے اور اگر پی پی اور نون حلیف ہوجائیں تو پھر نواز شریف کی حکومت کب آئے گی؟ سو یہ سب اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ زرداری بہت بدعنوان شخص ہے لیکن اسے صدر بنانے والے بھی یہی لوگ ہیں۔ اس وقت مشرف سے جان چھڑانی تھی تو زرداری کا کاندھا استعمال کیا اور اب زرداری سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں۔

  3. میں یہ کالم پڑھنے کے بعد اس کا لنک لگانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ نعمان نے اس پر پوسٹ لکھ ڈالی اور خوب لکھی !
    ویسےجناب اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ کسی بے وقوف اور مفاد پرست کی تلاش رہتی ہے!اور اس حوالے سے نواز شریف ان کا آزمایا ہوا گھوڑا ہےتو اس پر ہی شرط لگائیں گے نا!
    دیکھا نہیں ہے ان کے بندے کس طرح نواز کو اس ملک کا نجات دہندہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے دے رہے ہیں،بس قوم ہی بے وقوف ہے کہ اپنے نجات دہندہ کو پہچان ہی نہیں پارہی:)

  4. یہ پہلی بار نہیں کہ ملک کی تمام تر سیاست کا محور محض ایک شخص کو سمجھا جانے لگا ہے۔ اس سے پہلے بھی فرد واحد کو ملکی بقاء و سلامتی کا ضامن سمجھا جاتا رہا ہے۔ میں تو سمجھا کہ شاید عباس مہکری ہی صدر کی قصیدہ خوانیوں میں مشغول ہیں لیکن پھر پتا چلا ان کے دیگر ہم عصر بھی ان کی صف میں شامل ہیں۔

    سلیم صافی کے اس مضمون کی کچھ سمجھ نہیں آئی۔ مضمون کے پہلے اقتباس میں حکومت مخالف خواہشات کی عکاسی کرتے ہیں تو اِسی مضمون کے دوسرے اقتباس میں وہ حکومتی حامیوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ گویا وہ چت بھی ہمارا اور پت بھی ہمارا والا معاملہ رکھنا چاہتے ہیں۔

    یہ بات انتہائی بچکانہ محسوس ہوتی ہے کہ آپ اس لئے گناہ کریں کہ دوسرا بھی تو گناہ گار ہے۔ نیز یہ کہ جناب پہلے کہاں تھے اور اب شور کیوں؟ این آر او چاہے نوازشریف کاے لئے ہو یا بے نظیر کے لئے، فائدہ اسی کو پہنچا جو فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

    پارلیمانی نظام میں طاقت کا محور صدر نہیں ہوا کرتا۔ لہٰذا یہ عجب خیال ہے کہ صدر کے جانے سے ملک یا جمہوریت خطرہ میں پڑجائے گی۔ گر ایک ہی شخص ملک کی سلامتی کا ضامن ہے تو نظام کو پارلیمانی اور تین سو سے زائد پارلیمانی اراکین کی بھلا کیا ضرورت؟ سب کو گھر بھیج کر اقتدار کے مزے لوٹیں اور پھر ایک دو نہیں دس سال کرپشن کریں پھر ہر الزام ‘مبینہ’ قرار دے کر فرار ہوجائیں۔

    ایسا کرنے سے کوئی قیامت تھوڑا ہی آنے والی ہے۔

  5. اسد، پاکستان کے صدر کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس آئین کا احترام ضروری ہے۔
    دوسرا اعتراض اگر کرنا تھا تو جو ساری دنیا میں مروجہ طریقہ ہے کہ انتخاب کے وقت اعتراضات کئے جاتے ہیں تب کیوں یہ میڈیا خاموش تھا؟
    بے شک کرپشن کرنے والوں کو سزا ملنی چاہئے۔ مگر یہ کرپشن کا چکر نہیں یہ اسٹیبلیشمنٹ کے صدر بھگانے کا چکر ہے جس کی ہمیں مخالفت کرنی چاہئے۔ آئین میں صدر کے مواخذے کا طریقہ موجود ہے۔ اس پر اگر عمل درآمد ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر کردار کشی اور پروپگینڈہ بند ہونا چاہئے۔

  6. ajmal deleted my comment from his post!
    ہیں!

    December 3, 2009 12:45 PM
    Abdullah said…
    کراچی میں لاشیں وہ گروا رہے ہیں جو پٹھانوں کو اسی طرح استعمال کررہے ہیں جس طرح ہندوؤں نے سکھوں کو استعمال کیا تھا!
    اس حوالے سے میرے ذاتی تجربات تو میں بعد میں بتاؤں گا !مہر آپی نے اپنے حوالے سے جو بات بتائی تھی وہ کیونکہ تین نسلوں کا قصہ ہے اس لیئے بتا رہا ہوں، مہر آپی کی والدہ بتاتی ہیں کہ وہ جب ہندوستان سے آئیں تو بہت کم عمر تھیں وہ لوگ پنجاب میں آکر رہے جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو ہر لڑکی یہی سوال کرتی تم کون ہو کہاں سے ائی ہو جب بتایا جائے تو کہتیں اچھا تم لوگ ہندوستوڑے ہو ارے بھائی تم لوگ تو بھگوڑے ہو ! اور وہ شرمندہ ہو کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتیں ،شادی ہوکر وہ کراچی آگئیں یہاں مہر آپی پیدا ہوئیں اور جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو کسی نے نہیں مگر ایک پنجابی لڑکی نے ان سے یہ سوال کیا کہ تم کون ہو انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا پاکستانی وہ کہنے لگی پاکستانی تو تم بعد میں ہوگی ویسے تم کہاں کی ہو؟ کراچی کی، ارے نہیں بھئی کراچی کی نہیں پیچھے سے تم کہاں کی ہو؟اس سوال کا جواب انکے پاس نہ تھا اپنی والدہ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ کیونکہ تم سندھ میں پیدا ہوئی ہو اس لیئے سندھی ہو جب اگلے دن پھر اس نے یہی سوال دہرایا تو انکا جواب سن کر اس نے زور سے قہقہہ مارا اور بولی سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتیں کہ تم ہندوستانی ہو،وہ اس سے جھگڑ پڑیں کہ نہیں میں پاکستانی ہوں ،اور ابھی چند سال پہلے پھر دو پنجابی خواتین نے الگ الگ موقعوں پر انہیں کہا آپ ہندوستانییوں میں ایسا ہوتا ہے ،آپ ہندوستانی تو ایسا کرتے ہیں،تو ان کی قوت برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے کہا میں اس ملک میں پیدا ہونے کے با وجود ہندوستانی ہوں اور میری اولاد بھی ہندوستانی ہے تو ہمیں کتنی نسلیں لگیں گی پاکستانی بننے میں؟
    یہ ہے تعصب کا وہ ذہر جسے وطنیت کی شوگر کوٹیڈ گولی کی شکل میں اس ملک کے باقی مانندہ لوگوں کو کھلایا جارہا ہے عرصہ ٦٢ سال سے!
    اور مزے دار بات یہ ہے کہ یہ غم صرف کچھ مخصوص پنجابیوں کو ہی کھائے جاتا ہے!

  7. آپ نے اسٹیبلشمنٹ کے مطابق’ اور ‘ایجنٹ عباسی’ کے الفاط خوب استعمال کئے، مزہ آیا۔ اگرچہ میں اپنی ذاتی زندگی میں کچھ جملوں کو استعمال کرنے سے شدید گریز کرتی ہوں، اور ان میں سے ایک جملہ ہے ‘مجھے نفرت ہے’ ۔ لیکن جیو چینل سے میری نفرت کا پہلا باعث یہی اسٹیبلشمنٹ کے مطابق بنے۔
    میڈیا کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں کو ہمارا ہیرو بنانے میں کوئ دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ اور آج جبکہ ہم اس عالم پہ پہنچ گئے کہ کوئ دن خالی نہیں جاتا کہ بم پھٹنے کی اطلاع نہ ملے یہ میڈیا خوش ہے کہ وہ مصروف ہے۔
    پرانے زمانے میں بڑی بوڑھیاں فارغ رہنے کو بہت برا جانتی تھیں۔ ازور اس بات پہ ہوتا تھا کہ کچھ نہ کچھ کرتے رہو۔ اگر کوئ کام میسر نہیں تو پرانے کپڑوں کو ادھیڑ کر پھر سینا شروع کر دو۔
    اب جبکہ ماشاءاللہ سے ہمارے پاس گنوانے کے لئیے کچھ ایسا خاص رہا نہیں تو فارغ وقت میں سیستداں کیا کریں۔ میڈیا کا پیٹ تو خبروں سے بھرتا ہے تو اس سلسلے میں سیساستدانوں کی صلاحیتوں کو ناکافی جان کر انہوں نے اپنے طور پہ بھی کام شروع کر دیا ہے۔ اس سے خبروں کی بروقت پیدائش اور ترسیل بلا کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی۔ باقی عوام اور دہشت گردوں والا ڈرامہ سوپ اوپرا کے طور پہ چلتا رہیگا۔ اب سب مصروف ہیں۔
    ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو پپو نواز شریف اتنے کیوں بھاتے ہیں؟ اسکی وجہ؟ میں نے کچھ دنوں پہلے ایک گانے میں سنا کہ’ پپو سالا ڈانس نئیں کر سکتا یار’۔ کیا واقعی ہم لوگوں کو ڈانس سے اتنی نفرت ہے۔

  8. انیقہ یہاں پر آپ مات کھا گئیں پپو تو بہت اچھا ڈانس کرسکتا ہے اسٹیبلشمنٹ کی انگلیوں پر :smile

  9. عبداللہ میری بیٹی نے آکر اتنا شور مچایا کہ میں نے اپنے ذہن میں آیا ہوا آخری جملہ لکھنے سے پہلے ہی اسے پوسٹ کر دیا۔ اب دیکھتی ہوں کہ نہیں لکھا۔ تو آخری جملوں کو اس طرح پڑھا جائے۔ کیا ہم لوگوں کو ڈانس سے اتنی نفرت ہے؟ اور کیا پپو واقعی ڈانس نہیں کر سکتا؟

  10. نعمان بھائی! کئی ماہ سے گاہے بگاہے آپ کے بلاگ کو دیکھتا رہتا ہوں، دلچسپ چیزیں ملتی ہیں، لیکن بلاگز کے مطالعے کے بعد ایک تاثر آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ بات کسی ایشو پر بحث سے شروع ہوتی ہے ،جو آخر کار انتہائی جزئیات یا ذیلی امورپر گفتگو تک ختم ہوجاتی ہے، نتیجتاً بلاک کے پہلے ایک دو تبصرے پڑھنے کے بعد میں مزید آگے نہیں پڑھ سکتا، آج بھی کم وبیش 8، 10 بلاگ پڑھے ہیں لیکن یہی نوک جھونک کی کیفیت نظر آئی ہے- مناسب ہوگا کہ کسی بھی بلاگ کے آغاز میں زیر بحث ایشوز کا تعین کردیا جائے تاکہ ان کے بارے میں مختلف لوگوں کی آراء اور تبصرے پڑھے جاسکیں- شکریہ
    آئندہ آپ کی مجلس میں شریک ہوتا رہوں گا،

Comments are closed.