اے میرے بابا جاں

ہاتھ کانوں پہ ہیں
نیل گالوں پہ ہیں
اور نشاں جو سکینہ کے شانوں پہ ہیں
ہر نشان سے یہی
آرہی ہے صدا

بابا جاں بابا جاں

کل تھی ماں آج میں بھی ہوں دربار میں
مثل زہرا کھڑی ہوں میں اغیار میں
اس طرف ہے شقی اس طرف رہ گئیں بےپدر بیٹیاں

ایسا خطبہ دیا میں نے دربار میں
لکھ رہا ہے جو یاور تیرے پیار میں
لہجئہ حیدری ہر اذاں کے لئے ہے صدائے اذاں

اے میرے بابا جاں
ہورہی ہے اذاں
سر چھپاؤں کہاں

معرکہ کربلا نے اسلامی ادب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس المناک سانحے کی یاد میں لکھے جانا والا ادب، نوحہ خوانی اور بیان کربلا نے اسلامی کلچر کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ مجھے گذشتہ چند دنوں سے نوحہ خوانی، شیعہ مقررین کے خطابات اور دیگر لٹریچر اور ملٹی میڈیا دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کیا سچ ہے کیا مبالغہ، جو بات مجھے تحیر میں مبتلا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ سانحہ کربلا کا مسلمان سوچ پر ایک بہت زبردست اثر ہے اور اس کا زیادہ تر کریڈٹ ان تاریخ دانوں کو نہیں جاتا جنہوں نے یہ واقعہ اپنے اپنے طریقے سے بیان کیا ہے۔ بلکہ ان لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے اس کی عظمت کو اپنے فن کی مہارت سے اجاگر کیا۔ ان میں خطیب، سوز و نوحہ خواں، شاعر، ادیب، مذہبی اسکالر سب کی کوششیں شامل ہیں۔

تبصرے:

  1. بالکل بجا فرمایا بھیا۔ اس سانحہ کے اثرات ہمہ گیر ہیں اور انہیں محفوظ کرنے میں تمام مکاتیب فکر نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

  2. یہ ایک بہت دلچسپ امر مجھے لگتا ہے۔
    جو بات مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ خاص طور پہ شیعہ فرقے کا اس واقعے کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا منبع بنا لینا ہے۔ہر سال ہی اسے بہ اہتمام دوہرایا جاتا ہے۔
    معذرت کے ساتھ، میں کسی کو غیر مسلم نہیں کہہ رہی مگر صرف یہ مشاہدہ شامل کرنا چاہ رہی ہوں کہ قدیم یونانی اور ہندو اساطیری کہانیاں بھی جنم جنم سے زندہ ہیں اور انہوں نے انسانی تہذیب تمدن اور ادب اور انسان کی تخلیقی صلاحیتوں پہ دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔
    ان سب چیزوں کا انسانی نفسیات سے گہرا تعلق ہے۔ مجھے اس وقت اسد محمد خان کی ایک کہانی یاد آرہی ہے جسکا نام ہے غصے کی فصل۔ یہ انکے افسانوں کے مجموعے میں موجود ہے جسکا نام ہی غصے کی فصل ہے۔
    انسانی صلاحیتوں میں تخلیق کی صلاحیت شاید خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسے مہمیز کرنے کے لئے کسی بڑے واقعے کا ظہور پذیر ہونا ضروری ہے۔ یہ میرے ذاتی خیالات ہیں جو بالکل غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اور انکا مقصد کسی طور بھی کسی کو صحیح یا غلط ثابت کرنا نہیں ہے۔

Comments are closed.