کراچی کے لوگوں کی ایک بری عادت ان کی بے رخی، صاف گوئی اور بے اعتنائی ہے۔ یہ میری رائے نہیں یہ ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کی رائے ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ایک مثال:
واضح رہے یہ اس شخص کی ویڈیو ہے جو سانحہ کراچی کے بعد چھتیس گھنٹے تک خود کھڑے ہوکر آگ بجھانے اور عمارتوں کو بچانے کے کام کی نگرانی کرتا رہا۔ اگلے دن اس نے چیمبر آف کامرس کے ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ کل بزنس کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی مدد آپ کے تحت مارکیٹوں کی تعمیر نو اور مرمت کے کام کا آغاز کروایا۔ جب یہ سب کام نمٹا کر وہ واپس پہنچتا ہے تو اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ اس بارے میں کیا کہے گا کہ اس کی سیاسی جماعت پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شبہ کیا جارہا ہے؟
آپ چاہے کراچی والوں کو بدتمیز کہیں، میری رائے یہ ہے کہ کراچی کے لوگ پرجوش ہیں۔ آپ زخموں سے چور اس شہر کے نمائندوں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں اور شہر سب الزامات سے بے پرواہ ملبہ میں سے پھر اٹھ کھڑا ہورہا ہے:
ایک اور سوال جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کا کونسا قابل ذکر رہنما، ملکی معیشت کو پہنچنے والے اس تیس ارب کے نقصان کا جائزہ لینے، افسوس کرنے یا متاثرین سے اظہار ہمدردی کے لئیے آیا ہے؟ پھر آپ حیران کیوں ہوتے ہیں کہ لوگ ایم کیو ایم کو بھتہ بھی دیتے ہیں اور ووٹ بھی۔
ناجائز کام ناجائز ہی رہتا ہے ، اسے آپ کسی بھی جوش کتابت یا جذبات کی گرمی میں لپیٹ کر جائز قرار نہیں دےسکتے۔ مصطفی کمال ایک بدتمیز اور غصیلا آدمی ہے جس میںاپنے گرم مزاج پر قابو پانے کی استطاعت نہیں، آپ لوگ اس کی بدتمیزیوں کو چھپانے کے لیے کب تک ایسی تحاریر لکھتے رہیں گے۔ آپ کے بلاگ پر تو میں کبھی کبھار اچھی یا معلوماتی تحاریر کے لیے آ جاتا ہوں، آپ نے یہ کام کب سے شروع کر دیا ؟
ویسے ہمارے معاشرے میں یہ ایک رحجان کافی فروغ پا رہا ہے، خود پر بات آنے نہیںدینی، چاہے بات سچ بھی ہو اسے تسلیم نہیںکرنا
مصطفی کمال ایک روشن مثال ہے کاش اللہ پورے پاکستان کو مصطفی کمال جیسا محنتی اور مخلص کردے تو اس ملک کا مستقبل شاندار ہوگا انشاءاللہ!
مسلمی لیگی رہنماءووں کو یہ تک پتہ نہیں کہ اس علاقے میں کس قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ دھماکے جبکہ اس علاقے کے تاجران اپنے انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ کل تک ہم کروڑ پتی اور لکھ پتی تھے اور آج زمین پہ آگئے۔ عین اس بیان کے دو گھنٹے بعدٹی وی پہ مسلم لیگ نون کے ایک سربرآوردہ لیڈر افسو س کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ علاقہ بنیادی طور پہ لوئر مڈل کلاس لوگوں کا علاقہ تھا اور انکے لئیے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔
حالانکہ یہ علاقہ کراچی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
کراچی سے اظہار ہمدردی اور تشویش رکھنے والے ان عناصر کو یہاں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ انہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ انہیں رائے کیا دینی ہے۔
وہ یہاں کے اپنے ہی جیسے متعصب عناصر کی رائے کو وزن دیکر یہ نقشہ بناتے رہتے ہیں جو اصل حقائق سے کہیں دور کھڑا ہوتا ہے۔
آخر کراچی والے یہ کیوں نہ سمجھیں کہ یہ دھماکہ مسلم لیگ نون نے کرایا ہے۔ انہیں کراچی سے ویسے بھی کوئ لگاءو نہیں اسکا ثبوت انکے عہد حکومت میں اس شہر کو بری طرح نظر انداز کیا جانا ہے۔ اور حالیہ دھماکے میں بھی انکی عدم دلچسپی ہے۔ اور اسکی دوسری وجہ وہ نہیں چاہتے کہ ایم کیو ایم پنجاب میں قدم رکھنے کے بارے میں سوچے۔ اور اسکا ایک ہی حل ہے کہ ایم کیو ایم کو اس حد تک بدنام کیا جائے کہ خود کراچی میں بھی اسکے خلاف فضا بنا دی جائے۔
حیرت ہے نواز شریف نواب اکبر بگٹی جیسے سماج دشمن شخص اور مجرم کو تو تاریخ میں ایک اہم بلند اور عظیم مقام دینے سے نہیں ہچکچاتے۔ ملاحظہ کیجئیے انکی کل کی پریس کانفرنس بلوچستان کے سلسلے میں۔ تو پھر ایم کیو ایم کا کیا قصور۔ انہوں نے بگتی کی طرح اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق سے تو محروم نہیں رکھا ہوا۔
پھر کراچی والے یہ کیوں نہ سوچیں کہ یہ دھماکہ زرداری اینڈ کمپنی نے کرایا ہے جو قیمتی زمینوں کو ہڑپ کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ بے نظیر کے مرنے والے دن اور اسے اگلے روز کراچی میں ایم کیو ایم نے تو ہنگامہ برپا نہیں کیا تھا۔ عینی شاہدین کے بمطابق جن میں میرے اپنے جاننے والے بھی شامل ہیں ۔ ان ہنگاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں ملیر کے اطراف میں موجود گوٹھوں کے افرادجن میں بلوچ اور سندھی دونوں شامل ہیں اور انہی اطراف میں موجود ہزارے گروپ کے افراد شامل ہیں۔ کراچی کی تاریخ میں وہ رات کسی آسیب سے کم نہ تھی۔ ایک رات میں نو سو کے قریب گاڑیاں جلا دینا اور پچیس فیکٹریوں کو نذر آتش کر دینا کیا کوئ جرم نہیں۔ اور صرف کراچی نہیں پورا سندھ اس رات اور اگلے دن جلتا رہا، اربوں روپے کا نقصان ہوا۔لیکن اس واقعے میں پکڑے جانیوالے تمام افراد نہ صرف رہا کر دئیے جاتے ہیں بلکہ تمام لوگوں کے ذہن سے یہ واقعہ اس طرح محو ہوجاتا ہے جیسے کبھی کچھ نہ ہوا تھآ۔ تمام متعصب لوگ جو ایم کیو ایم کو ایک متعصب جماعت اور کراچی سے تعلق رکھنے والوں کو متعصب سمجھتے ہیں یہ رات کبھی اپنے حوالوں میں نظر نہیں آتی۔ حالانکہ یہ کوئ پرانا واقعہ نہیں ابھی صرف دو سال ہوئے ہیں اسکو۔
دیکھئیے گا اتوار کا جنگ اخبار، جس میں ایک کالم نگار صباحت صدیقی نے کسطرح یک طرفہ حقائق جمع کرکے رائے دی ہے۔
http://ejang.jang.com.pk/1-3-2010/pic.asp?picname=08_03.gif
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ دھماکہ کیوں نہیں کیا ہوگا۔اس سے چند دن پہلے ہی تو انہوں نے تائثر دیا تھا کہ پاکستان کی سالمیت اور بقا انکے ہاتھ میں ہے۔ کیا یہ انکا پاور شو نہیں ہو سکتاکیا یہ شہر میں موجود مختلف ایجنسیز کا کیا دھرا نہیں ہو سکتا جو یہ جانتے ہیں کہ کراچی ملک میں اپنی ایک معاشی و اقتصادی اہمیت رکھتا ہے۔ اور پاکستان میں انارکی کو عروج پہ پہنچانے کے لئیے کراچی کو چھیڑنا ضروری ہے۔
اور کیا یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان دراصل ملک دشمن عناصر اور ایجنسیز کے آلہءکار ہیں۔
اور کیا طالبان نے کوئ قسم کھائ ہے کہ وہ صرف خودکش حملہ آور کے ذریعے ہی تباہی مچائیں گے اور کسی اور ذریعے سے دہشت گردی انکے یہاں خلاف شرع ہے۔
خوبصورت لفظوں میں تشریح کردینے یا جوش کہدینے سے غیر اخلاقی الفاظ اخلیاقات کے زمرہ میں شامل نہیں ہوجاتے۔
اسد اگر تمھارے بھائی کو کوئی قتل کر کے اس کے گھر کو آگ لگادے اور لوگ تم سے آآکر یہ کہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کو قتل کرکے اس کے گھر کو آگ لگادی ہے، تو تمھارا ردعمل کیا ہوگا؟
کیا اس وقت ھی تم اسی خلاقیات کا ڈھنڈورا پیٹوگے؟
جس تن لاگے سو تن جانے!
http://ejang.jang.com.pk/1-5-2010/pic.asp?picname=07_06.gif
نعمان ، آپ نے اپنے اچھے خاصے بلاگ کو سیاست سے کیوں آلودہ کر لیا؟ یہ سچ ہے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں اور سیاست دان عوام کو الو بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے پھر ہمیں ان میں سے چند مداریوں کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کے خلاف الزام لگانے میں ضائع کرنے سے کیا حاصل؟ میں بے شک پنجاب سے تعلق رکھتا ہوں لیکن میرے کزنز جو سندھ ہی میں پیدا ہوئے وہ ایم کیو ایم کے کرتا دھرتا رہے ہیں اس لئیے میں جانتا ہوں کہ دیگر جماعتوں اور ایم کیو ایم میں کوئی فرق نہیں۔ اور رہی بات بھتے کی تو اس پہ پردہ ہی پڑا رہنے دیں تو بہتر ہے۔ کیا جماعت ، کیا ایم کیو ایم سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں۔ ہم عوام ہیں ہمیں ان مداریوں کی ڈگڈگی پہ ناچنے کی بجائے ان کا محاسبہ کرنا چاہئیے ۔ کراچی ہی نہیں پنجاب ، سرحد اور بلوچستان کا ہر ہر کونہ آپ کا اپنا ہے لہذا سیاست اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے بنائے قفس میں اپنی سوچوں کو قید کرنے کی بجائے آزادی سے پورے پاکستان کی بات کیجئیے۔ نواز شریف غلط کرتا ہے تو اس پہ تنقید کیجئیے زرداری غلط ہے تو اس کی خبر لیجئیے لیکن ایک محدود وژن سے سیاست کا تجزیہ کرنے سے گریز کیجئیے کہ یہ آپ کو غیر جانبدار نہیں رہنے دے گا۔
مصطفی کمال جیسا شخص پہلی بار پاکستان کو ملا ہے اس نے واقعی شاندار کام کئے ہیں ایم کیوایم کے دشمن بھی مصطفی کمال کو دعائیں دیتےنہیں تھکتے۔ مصطفی کمال پر بلاوجہ الزام تراشی کی جاتی ہے۔ جو کبھی ناقابل برداشت بھی ہوجاتی ہے۔اور اس پرمصطفی کمال کاغصہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ پورے پاکستان کو مصطفی کمال جیسا محنتی اور مخلص کردے تو اس ملک کا مستقبل شاندار ہوگا انشاءاللہ
اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اچھے کام کرنے کے بعد دوسروں کو گالیاں دینا جائز ہے۔
آپ یہ بات بھول رہے ہیں کہ لیڈر اپنے عوام کا امیج ہوتا ہے اور جو وہ بات کہتا ہے وہ اپنے عوام کی طرف سے کہتا ہے۔ لیڈر اگر غصہ کرنے لگے تو پھر وہ دماغ استعمال کرنا چھوڑ دے گا۔ لیڈر کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ ہر تنقید کو تحمل سے سنے اور اس کا جواب دے۔ آپ مصطفی کمال کی زبان درازی کوجائز ثابت کرنے کیلیے جتنی تاویلیں گھڑ لیں زبان درازی تو زبان درازی ہی کہلائے گی۔
افضل آپکی اس گفتگو کا جواب میں پہلے ہی آپکی پوسٹ پر دے چکا ہوں پھر بھی آپکی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے، اسی لیئے تو مینے کہا ہے کہ مجھے امید کم ہی ہے!:)
افضل اسد اور یاسر عمران مرزا:
مصطفی کمال کی بدتمیزی یقینا ناگوار ہے اور ایک منتخب نمائندے کو اس قسم کی زبان کا استعمال زیب نہیں دیتا اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ میں اس کی کوئی صفائی پیش نہیں کررہا بلکہ اگر آپ پوسٹ کا ٹائٹل دیکھیں تو اس میں صاف صاف بدتمیز لکھا ہوا ہے۔
لیکن جب آپ ایک شخص کو دیوار سے لگانے کی کوشش کریں گے جبکہ وہ جائے وقوع پر رات دن کام کرتا رہا ہے تو یقینا یہ روش بھی قابل مذمت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس روش کی مذمت کہیں سے بھی نہیں کی جارہی۔ اور احمقانہ کنسپائرسی تھیوریز پیش کی جارہی ہیں۔
ساجد ۔ بالکل آپ صحیح کہہ رہے ہیں ایک خاص زاویہ سے چیزوں کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ امید ہے آپ یہ مشورہ ان صاحبان کو بھی جاکر دیں گے جو جھوٹ پر مبنی کنسپائرسی تھیوریز اپنے بلاگ پر سچ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ غیرجانبداری بڑی سبجیکٹو چیز ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ حقائق پر مبنی جانبداری اپنائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
نعمان آپکا یہ کہنا صحیح ہے کہ غیر جانبداری ایک سبجیکٹو چیز ہے۔ اور در حقییقت مطلق غیر جانبداری کوئ چیز نہیں ہوتی۔ اسی لئے دنیا میں اتنی رنگینیت ہے۔
لیکن سوال یہی ہے کہ جانبداری کے اس عمل میں آپ چیزون کو حقائق سے دور لیجائیں۔ اسی طرح نواز شریف یا زرداری پہ بات کرنے سے کیا بڑا وژن ہوگا۔ جبکہ وہ خود محدود ترین وژن کے لوگ ہیں۔ مجھے تو یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئ کہ نواز شریف اور زرداری پہ بات کی جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ وہ ہمارے نمائندے نہیں ہیں۔ محلوں میں رہنے اور پرورش پانے والے وڈیرے اور سرمایہ دار ہم جیسوں کے نمائندے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ان پہ کوئ بات کرنا بیکار ہے۔
بڑا وژن تو یہ ہوگا کہ یا تو ہم موجودہ سیاسی نظام اور جماعتوں کو درست راہ پہ چلنے کے لئیے مجبور کریں، اور کوشش کریں کہ وہ عوامی سطح کے لوگوں کو سامنے لائیں۔ جو فیض کی زبان میں میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔۔ یا پھر آپ اپنا ایک الگ پلیٹ فارم بنائیں جہاں سے آپ ایک تعمیری سیاسی نظام کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر سکیں۔
مجھے ذاتی طور پہ تو دوسرا کام مشکل لگتا ہے۔ کیونکہ ہمارا معاشرتی اور سیاسی مزاج ایسا ہے کہ جب تک پارٹی میں کچھ بدمعاش نہ ہوں اور اسے کہیں سے مالی حمایت حاصل نہ ہو چند دن بھی گذارنا نا ممکن ہے۔
تو میں تو اسی نتیجے پہ ہوں کہ جو پارٹیز ہمیں میسر ہیں انہیں درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو اچھے کام وہ کرتے ہیں اس پہ انہیں شاباش کہا جائے اور جو برے کام وہ کرتے ہیں اس پہ انہیں ٹوکا جائے اور جو کام انہیں کرنا چاہئیں اور وہ نہیں کرتے انہیں بتایا جائے اور مجبور کیا جائے کہ وہ اسے کریں۔ جیسے انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ متوسط طبقے کے لوگوں کو سامنے لائیں، پارٹی کو وراثتی آسیب سے نجات دیں، ہر پارٹی اپنے منشور پہ کام کرے، اور اپنی چند شخصیات کے بجائے اپنے منشور سے پہچانی جائے۔
محض کسی ایک پارٹی کو نشانہ بنانا، ہر برے کام کو ان سے وابستہ کرنے کی کوشش کرنا چاہے حقائق اسکے کتنے ہی خلاف ہوں اور اپنے اس طرز عمل پہ غیر جانبداریت کا اصرار کرنا، یہ بھی کوئ تعمیری یا مثبت رویہ نہیں ہے۔
ایک شخص نے ایک ڈاکا ڈالا ہو لیکن آپ اسے سزا دیتے وقت چار مزیدچار ڈاکوں کی بھی سزا دے دیں۔ اس طرز عمل کو کون منصفانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دےگا۔ ایک شخص نے چوری کی ہو مگر آپ اسے قتل کی سزا بھی دیں یہ بھی کوئ منصفانہ بات نہیں۔
اور اگر ایک شخص اپنے حصے کی سزا بھگت کراچھا بچہ بننے کی کوشش کر رہا ہو تو بھی اسے موقع دینے سے گریز کریں، یہ کہاں کی مثبت طرز فکر ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی پائے کے مجرم دوسرے بھی ہوں مگر ان سے لو لگا لی جائے۔ رویوں کا یہ فرق ہی تو متعصب جانبداری ہے۔
عنیقہ ناز ، اپنی تحریر کو دوبارہ غور سے پڑھئیے اور خود ہی اس میں موجود تضادات کا مشاہدہ فرما لیجئیے۔ نواز شریف اور زرداری کی خبر لینے کا لکھنا ایک استعارہ تھا جسے نعمان سمجھ گئے لیکن آپ نہ سمجھ سکیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ پورے پاکستان کے سیاستدانوں کی قلابازیوں کا تجزیہ کریں اور ایم کیو ایم بھی اسی سیاست کا ایک حصہ ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نعمان ، میں نے غیر جانبداری والی بات آپ کو نشانہ بنانے کے لئیے نہیں کی تھی اگر آپ کو میری تحریر سے یہ تاثر ملا ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
نعمان ، یہ پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب پہ ہی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کی بہتری کے لئیے کام کریں نا کہ اپنے اپنے سیاسی و مذہبی خداؤں کی پوجا کرتے ہم اس کی سالمیت کے لئیے خطرات پیدا کریں۔ جو بھی یہ کام کرتا ہے وہ مذہب کا پردہ اوڑھے ، قومیت کا یا لسانیت کا ،بے نقاب ضرور ہو جاتا ہے لیکن ہمارا سیاسی کلچر کچھ ایسا ہے کہ ہم عقل کی بجائے جذبات سے کام لیتے ہیں اور انہی جذبات سے فائدہ اٹھا کر یہ عناصر عوام کا مسلسل استحصال کرتے ہیں۔ اگر کسی کو یہ وہم ہے کہ میں چونکہ پنجاب سے متعلق ہوں تو کسی ایک مخصوص پارٹی کی بات یا حمایت کرتا ہوں تو وہ ابھی اس وہم کو دور کر لے۔ میں کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت سے وابستہ ہوں اور نہ ہی کسی کی وکالت کرتا ہوں۔
جناب ساجد صاحب آپ خود نہیں جانتے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں،اگر ہم ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہیں تو ان کے اچھے کاموں کی تعریف بھی ہم ہی کریں گے اور ہمیں کرنا بھی چاہیئے ویسے تو یہ بات تمامام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جتنا عوام کی فلاح و بہبود کے لیئے کام ایم کیو ایم نے کیا ہے دوسری جماعتوں نے اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا یہاں تک کہ جسٹس افتخار چوہدری کو پنجاب کے لوگوں سے یہ کہنا پڑا کہ جائیں جاکر کراچی میں دیکھیں کہ مصطفی کمال نے کتنا کام کیا ہے!
جناب فرماتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے ذکر سے اپنے بلاگ کو آلودہ نہ کریں کیوں جناب پاکستان کی سیاست کے بارے میں بات کر نے خلائی مخلوق آئے گی؟ کب تک پاکستان کی عام عوام کے لیئے پاکستان کی سیاست شجر ممنوعہ بنی رہے گی؟انیقہ نے بلکل درست کہا کہ ہمیں جو میسر ہے ہم اسی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے اور پھر اس میں سے بہترین کا انتخاب کریں گے ایم یو ایم پر بھتہ وصول کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں جبکہ نعمان جو خود ایک دکاندار رہ چکے ہیں اس بات کی بارہا تردید کر چکے ہیں خود مینے کبھی اپنے پورے خاندان یا دوستوں رشتہ داروں سے ایسی کوئی بات نہیں سنی البتہ اپنی آنکھوں سے ایجینسیوں کے پروردہ حقیقی کے بدمعاشوں کولوگوں سے زبردستی چندہ وصول کرتے دیکھا ہے، ہاں میرے ایک پنجابی دوست نے یہ ضرور بتایا اور یہ اس کا ذاتی تجربہ نہیں تھا بلکہ وہ جس پنجابی ڈاکٹر سے علاج کروانے جاتا تھا انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ ان سے ایم کیو ایم کے لوگ زبردستی چندہ لیتے ہیں تو مینے اپنے دوست سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے کہو کہ وہ ایم کیو ایم کے ذمہ داران کو اس بارے میں اطلاع کریں اور وہ لوگ تحقیق کے بعد پارٹی سے نکال دیئے گئے اور ان کی نگرانی بھی شروع کی گئی تاکہ وہ ڈاکٹر صاحب کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچاسکیں اور ایم کیو ایم جب مشرف دور میں برسر اقتدار تھی تو اس نے اپنے کارکنوں کی سخت قسم کی اسکریننگ کی اور 6ہزار کارکنوں کو پارٹی سے باہر نکالا اور اب ایسی کوئی شکایات کسی کو ان سے نہیں ہیں! اور جسے ہوتی ہیں وہ اپنے علاقے کے ناظم یا سیکٹر انچارج کو اس کی خبر کرتا ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے،
میرے ایک جاننے والے ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج ہیں ابھی عید الاضحی پر میں ان کے پاس ملنے گیا ہوا تھاکہ ان کے پاس خبر آئی کہ لیاری کے کسی علاقے میں ایم کیو ایم کے لڑکوں سے بندوق کے زور پر قربانی کی کھالیں چھینی گئی ہیں لڑکے بہت اشتعال میں ہیں آپ فورا پہنچیں اور صورت حال کو کنٹرول کریں وہ وہاں پہنچے اور انھوں نےلڑکوں کو سمجھایا کہ جذباتیت سے کام نہ لو اگر کوئی غلط کررہا ہے توتم بھی اس کے نقش قدم پر چل کر پارٹ کی بدنامی کا باعث نہ بنو، ہمیں الحمد للہ اتنی کھالیں ملی ہیں کہ ان چند کھالوں کے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتااور یوں انہوں نے ایک بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کیا!
اس کے علاوہ ساجد آپکو اپنے بارے میں صفائیاں پیش کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے اگر اپکا کسی سیاسی پارٹیسےتعلقہےبھیتواسمیں اتناچھپانے کی ضرورت نہیں ہے سیاست عوام کی بہتری کے لیئے اور عوام کےحقیقی نمائندوں کے ذریعے ہو تو عبادت بن جاتی ہے اور ہمیں پاکستان کی سیاست کو اس نہج تک پہنچانا ہے انشاءاللہ!
ساجد آپ بالکل درست فرمارہے ہیں۔ ہم لوگ جذباتیت کی انتہا پر پہنچ گئے ہیں۔ روزانہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایس ایم ایس زرداری کی کردار کشی پر گردش کرتے ہیں۔ بلا سوچے سمجھے ہر شخص انہیں فارورڈ کردیتا ہے۔ یہ وہی قوم ہے جو "ایوب کتا ہائے ہائے” کے نعرے لگاتی تھی اور آج کہتی ہے کہ اس کا سا معاشی استحکام کسی نے پاکستان کو نہ دیا۔
میری پوسٹس کا مقصد پنجاب پر تنقید نہیں، میری پوسٹ کا مقصد اس رویے پر تنقید ہے جہاں ہمارے عوام عقل کو تالے میں بند کرکے ماورائے عقل بہتانوں کو صدق دل سے تسلیم کرلیتی ہے اور انہیں سینہ بہ سینہ منتقل کرنے لگتی ہے۔ اس روئے کی سرزنش ہوگی تو یہ رکے گا اس میں سیاسی جماعتوں سے ہمدردی یا غیر ہمدردی کی کوئی بات نہیں۔ یہ ایک معاشرتی برائی جو یقینا ہماری ترقی اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
جی ہاں نعمان ، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
عبداللہ صاحب ، کسی سے اختلاف رائے رکھنا اور اس کا اچھے الفاظ میں اظہار کرنا ایک نعمت خداوندی ہے ۔ آپ کی تحریر اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ آپ اس نعمت سے محروم ہیں۔ بہر حال آپ کے پاکستان کے بارے میں نیک جذبات کی میں دل سے قدر کرتا ہوں۔ یہ گزارش بھی کروں گا کہ جواب دینے سے پہلے تحریر کا بغور مطالعہ فرما لیا کریں ۔ میں نے کسی بھی سیاسی جماعت سے متعلق نہ ہونے پہ اپنے بارے جو لکھا ہے تو عرض کئیے دیتا ہوں کہ آپ تحریر لکھتے وقت جذبات میں شاید اس قدر بہہ گئے تھے کہ میری اس بات کو لکھنے کا مدعا نہ سمجھ سکے اور مجھے ایک نہایت قیمتی مشورہ سے نواز دیا۔
بہر حال آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے شرف نیاز بخشا۔
پی پی والے کہیں کہ ان کی پارٹی بے قصور، ایم کیو ایم کہے کہ ان کی پارٹی پارسا، حکومت میں دونوں ساجھے دار اور جل رہا ہے کراچی۔ الزام کس کو دیں کہ دونوں شراکت اقتدار میں بہرحال برقرار ہیں۔ اگر آپ مجرمان کا تعین کرکے انہیں گرفتار اور ان کے مربیان سے وصولی کروا سکتے ہیں تو بات ہے وگرنہ بیانات اور نعرے اور گالیاں تو ساٹھ برس سے چل رہی ہیں۔ فی الحال تو یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے جس کا ایک کردار مصطفٰی کمال ہے شائد۔
نعمان صاحب کا مزاج ، زرداری صاحب کا مزاج اگر آپ لوگوں کو معلوم ہوتو مصطفی کمال کی مظلومیت کی خوبصورت تصویر کشی آپکو معیوب نہیں لگے گی کیوں کہ سب کا نظریہ ہے کہ جو میرا دوست ہے وہ غلط بھی ہوتو صحیح ثابت کیا جاستکتا ہے اور جو میرا مدمقابل ہے وہ صحیح بھی ہوتو غلط سلط ہوجاتا ہے، ویسے ہم حقیقتوں اور فسانوں میں ہمیشہ یہ پڑحتے دیکھتے سنتے آءے ہیں کہ اکثر اپنے ہی مار کر نوحے اور واویلا کرتے ہوءے پائے گئے ہیں11
مصطفیٰ کمال ایک باکمال شخصیت ہیں اور کراچی والوں کو ان پراعتماد ہے ان الو ک پٹھوں کے لے اس سے بہتر لفظ نہیں موجود….
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
بہت خوب ، آپ نےبہت اچھی تحریرلکھی جوکہ آنکھیں کھولنےکےلیےکافی ہے۔
والسلام
جاویداقبال