میڈیا میں ان دنوں روالپنڈی کے ضمنی انتخاب کا بڑا غوغا تھا۔ خیر سے جیسا کہ توقع تھی مسلم لیگ ن کے شکیل اعوان صاحب ٹھیک ٹھاک ووٹوں سے جیت گئے۔ ان کی جیت کی توقع اس لئے بھی تھی کہ پنجاب حکومت کی تمام سرکاری مشینری ان کے ساتھ تھی یہ میرا نہیں عمران خان کا الزام ہے۔ میں تو جب سے سپریم کورٹ نے شریف برادران کو دودھ کے دھلے قرار دیا ہے تب سے ان کی ایمانداری پر شک نہیں کرتا۔ ہولناک قسم کے پوسٹروں سے روالپنڈی کی ہر دیوار اور ہر کھمبے کو ہی نہیں ہر گاڑی کو بھی آلودہ کردیا گیا تھا۔ سمجھ نہیں آتا یہ لوگ بھتہ بھی نہیں لیتے پھر بھی ان کے پاس انتخابی مہمات کے لئے اسقدر روپیہ کہاں سے آتا ہے۔
شکیل کے جیتنے کے بعد ن لیگ کے کارکنان نے وہ ہلڑ بازی کی ہے کہ الامان۔ اسقدر فائرنگ کی گئی ہے کہ بقول مطہر عباس، فضا بارود کی بو سے آلودہ ہوگئی ہے اور اسکور کارڈ بتانے والے بورڈ سے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے کارکنان سے فائرنگ بند کرنے کی اپیل کری جسے کسی نے توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔ روالپنڈی میں مسلم لیگ ن کے سب کارکنان کے پاس قانونی اسلحہ ہے جسے رکھنا، نمائش کرنا اور اس کا بے دریغ و بے تکا استعمال کرنا آئین اور شریعت کے عین مطابق ہے۔
میڈیا کا کردار اس سارے معاملے میں انتہائی جانبدارانہ رہا۔ شکیل میاں کو ٹی وی پر دیکھا بے چارے کو ٹھیک سے بولنا بھی نہں آتا جماعت کے تمام قائدین کو انہیں جتوانے کے لئے تقاریر کرنا پڑیں اور پوری مسلم لیگ ن کی تقاریر بھی اکیلے شیخ رشید کی آواز پر بھاری نہ پڑسکیں۔ ادھر بیان باز، ڈرامے باز، اور عوام کے خادم شیخ صاحب تھے۔ مگر، پنجاب کی عوام کا ووٹ دینے کا ڈھنگ بڑا سادہ ہے۔ جسے سمجھنے کے لئے کوئی زیادہ دماغ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ شیخ رشید پتہ نہیں کس خام خیالی میں تھے، دو چار کالج بنوادئے تو کیا لوگ انہیں زندگی بھر کے لئے سر پر بٹھالیں گے؟
مسلم لیگ ن کی دھاندلی سے شیخ رشید کو شکست ہوئی
بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ بچے کو بری بات پر پہلے نہ ٹوکا جائے تو عادت پختہ ہو جاتی ہے جیسے آپ صرف پہلا نام لکھنے کی انتہائی بری عادت میں مبتلا ہو چکے ہیں جو کہ ًپروفیشنل بلاگریً سے زیادی جذباتی بلاگنگ ہے۔
سپریم کورٹ سے جس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے وہ فٹ سپریم کورٹ پر الزام لگا دیتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ﴿ذاتی طور پر میں سپریم کورٹ کے میاں برادران کے فیصلے سے خوش نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ جب مشرف حکومت کے حق میں بھی اگست ستمبر میں ایک فیصلہ آیا تھا تب بھی اس پر اسی قسم کے الزامات لگے تھے۔﴾
اسلحہ کی نمائش روکے کون؟ یہی پارٹیاں خود؟ یا ان کے نمائندے یا عوام؟ بدقسمتی سے عوام تو کہیں ہے ہی نہیں ساری کی ساری تو کسی نہ کسی جماعت کی نمائندہ ہے اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی جذباتی ہو جاتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے؟
میں آپ کے آخری پیراگراف پر کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بابرکت اور باعث پوسٹ کوریج سے محروم رہا۔ ہاں صرف ایک دفعہ پی پی پی کے ایک بندے اور شیخ رشید کی کچھ باتیں ٹی وی پر سنی تھیں اور غصے کے مارے کھول اٹھا تھا کہ جہاں کسی کی قبر پر فاتحہ پڑھنا یا کسی مرے ہوئے لیڈر کے نام کے نعرے لگانا ہی ووٹ کا حاصل ہو تو یہ ہماری قومی بدقسمتی اور ان سپورٹرز کی بےوقوفی ہے۔ رہی بات پنجاب کی ساری مشینری لگانے کی تو آپ کو خود ایک ًتعلیم یافتہ عقلمند اور باشعور پروفیشنل بلاگرً ہونے کے ناطے پنجاب کا رقبہ معلوم کر کے لکھنا چاہئے تھا کسی شہر یا چلو ضلع کی حد تک تو ٹھیک تھا مگر باقی۔۔۔۔۔۔إ اور ایسے الزامات تو ہمارے سسٹم کی سچائی ہے۔ جیسے خود آپ کے شہر میں ۔۔۔ اینی وے آج کل جذباتیت کا زور کچھ زیادہ نہیں؟
بدتمیز۔ پہلا نام لکھنا کوئی برائی نہیں نہ ہی کوئی جذباتیت ہے کیونکہ میں نے اوپر پورا نام بھی لکھا ہے میں اسے کوئی قابل غور بات نہیں سمجھتا۔
مجھے سپریم کورٹ کے شریف برادران کو دودھ کا دھلا قرار دینے کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اسلحے کی نمائش کا یہاں ذکر اس لئے کیا گیا کہ حال ہی میں کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگز کے دوران یہ سوال اٹھا کہ کراچی کو آپریشن کے ذریعے غیر قانونی اسلحے سے پاک کردیا جائے۔ جس پر ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ اسلحہ تو پورے ملک میں ہے اور جہاں سے آتا ہے ان راستوں کو روکا جانا چاہئے۔
بالکل مزاروں پر فاتحہ خوانی اور جئے بھٹو کے نعرے شیخ رشید نے بھی لگائے اور شکیل اعوان نے بھی تاکہ پی پی کے ووٹر کو کھینچا جاسکے۔ اور بدقسمتی ہے کہ عوام ایشوز کے بجائے ان ڈرامہ بازیوں میں الجھ جاتی ہے۔
یہاں صوبے کی سرکاری مشینری کا استعمال کا ذکر نہیں۔ ساتھ ہونے [at his disposal] کا ذکر ہے۔ پنجاب کے دیہاتوں تلک سے لوگوں کو شکیل اعوان کے جلسوں میں سرکاری گاڑیوں میں بھر کر لایا گیا ہے۔
بالکل ہمارے شہر میں بھی ایسا ہوتا ہے ایم کیو ایم بے دریغ شہری حکومت کے وسائل کو انتخابات میں استعمال کرتی ہے۔
فرحان۔۔ نہیں دراصل شیخ رشید کو ہارنا ہی تھا۔ وہ اب بے پیندی کے لوٹے ہیں انہیں جلد ہی پیندا ڈھونڈنا ہوگا اور اگر پاکستان میں تاریخ خود کو ایسے ہی دہراتی رہی تو فکر نہ کریں شیخ رشید جلد وفاقی وزیر ہونگے۔
جب کوئی کراچی سے باہر رہنے والا جسکے ڈھير سارے قريبی عزيز پورے کراچی ميں پھيلے ہوں اور وہ خود بھی کراچی کے چکر لگاتا رہتا ہو کراچی کی بات کرے تو آپ اُسے سچا نہيں سمجھتے
آپ بتائيں گے کہ راولپنڈی ميں آپ کی زندگی کے اب تک کتنے دن گذرے ہيں تاکہ آپ کی سچائی کا کچھ اندازہ لگايا جا سکے
اجمل یہ سب کچھ ٹیلیوژن پر براہ راست دکھایا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ سب جھوٹ ہو ہوسکتا ہے جو لوگ جدید خودکار اسلحہ شکیل اعوان کے جلسے میں لہرارہے تھے وہ ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی کے غنڈے ہوں۔ مگر نعرے تو وہ سب نوزشریف کے لگارہے تھے۔
لوگوں کو گاڑیوں میں بھر کر لانے کا الزام بھی میرا نہیں عمران خان کا ہے جو انہوں نے ایک ٹاک شو میں لگایا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ الزام غلط ہو ہوسکتا ہے روالپنڈی کے ہزاروں لوگوں کے پاس واقعی ہی اتنا ٹائم ہو کہ پنجاب کے دیہاتوں میں شکیل اعوان کے پوسٹر والی گاڑیاں لیکر گھومتے پھر رہے ہوں۔
اجی آپ کو موقع ملا ہے لکھنے کا، خوب دل کھول کر لکھیے۔ ڈھونڈیے ڈھونڈیے ، آپ کو اور بھی بہت سے برے نقاط مل جائیں گے، آخر ن لیگ ہی تو پاکستان کی سب سے کرپٹ جماعت ہے نا۔ نواز شریف اکیلا نہیں، سبھی سیاستدان ہی دودھ کے دھلے ہیں۔ لیکن ہم لوگ یہی کہیں گے، آپ کی جماعت کا لیڈرسب سے بڑا گنہگار ہے اور ہماری جماعت کا لیڈر فرشتہ، ہے نا سر
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں ائی کہ عوام ووٹ کس معیار پر دیتے ہیں ۔ ایک محاورہ تو سنا ہو گا ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ۔ ووٹ صرف اسی کو دیا جاتا ہے جس کا اقتدار کے ایوانوں تک آسانی سے رسائی ہو یعنی جو اقتدارمیں ہو ۔ جیسے ق لیگ جیتی مشرف کے ساتھ کی وجہ سے ۔ ملک پاکستان کے عوام مسائلستان ہیں ، جیتنے والوں کے ساتھ جو بھنگڑے ڈالتے ، مٹھائیاں بانٹے ہیں ۔ کیا ان کے مسائل حل ہو چکے ہیں ۔ یعنی ملازمتیں ، مفت تعلیم ۔ علاج ، مہنگائی ۔ اگر نہیں تو پھر خوشی کس بات کی مناتے ہیں ۔ کہ مخالف زچ ہو ا ۔ ہار گیا ۔ اپنی فکر نہیں ہے صرف دوسرے کی شکست سے جو تسکین ملتی ہے نا قابل بیان ہے ۔ کاش انہیں یہ سوچ بھی پیدا ہو کہ الیکشن کا ایک مہینہ دیگیں کھانے پکانے سے ملک کی تقدیر نہیں بدل جائے گی ۔ لوٹنے والا لٹیرا ہوتا ہے لیڈر نہیں کب سمجھ میں آئے گا ۔ آج جتنے منسٹر ہیں اگلے الیکشن تک جمع کئے جانے والے ان کے اثاثے دیکھ لیں ۔
مجھے بد تمیز کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئ کہ پہلا نام لکھنا کیوں بری عادت ہے اکثر لوگوں کے پہلے نام لکھے جاتے ہیں جیسا کہ بے نظیر کا پہلا نام لکھا جاتا تھا۔ اگر یہی تحریر انگریزی میں لکھی ہو تو شاید بالکل اعتراض نہ ہو۔ نام کا کونسا حصہ لکھا جا ئے اسکا انحصار تو اس بات پہ ہے کہ آپکے نام کا کونسا حصہ مشہور ہے۔ مشرق میں عام طور پہ نام کے پہلے حصے کی اہمنیت ہوتی ہے اور مغرب میں خاندانی نام کی۔ جب ہم اکبر بادشاہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو صرف مغل کہہ کر مخاطب نہیں کرتے بلکہ اکبر کہتے ہیں۔تو یہ بات خاصی الجھن کا باعث ہے۔ کیا آپکو شکیل اعوان کو صرف شکیل کہنا برا لگا۔ مگر کیوں؟
کیا اردو کے پیشہ ورانہ بلاگر کی روایات انگریزی کے پیشہ ورانہ بلاگر سے الگ ہونی چاہئیں۔ یا یہ آپکی زاتی اخلاقیات ہیں جنکی پاسداری کرنا ہر ایک پہ لازم نہین۔ جسے مجھے اس بات پہ اعتراض ہوگا کہ آپ مجھے عنیقہ کہ بجائے مسز فلان یا مس فلاں کہیں۔ میرا نام میری پہلی شناخت ہے۔
باقی یہ کہ اپنی باری پہ تو لوگوں کو بہت زور سے لگی۔ خیر، متوقع امیر المومنین قبلہ وکعبہ محترم جناب محمد نواز شریف نے فرمایا کہ ہم سیاست نہیں عبادت کرتے ہیں اور اب انقلاب آ کر رہے گا۔ اور یہ ضمنی انتخاب، در حقیقت معرکہ ء حق و باطل تھا وغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھیں گیلانی کے ساتھ ناشتہ اور چاشت کی نماز پڑھنے یعنی سیاست کرنے کے بعد کیا انقلاب آتا ہے۔ اور معاہدہء حق و باطل کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ البتہ ایک بات ہے کہ طالبان کے حامی قبلہ شریف صاحب پنجاب کو اسکی برکتوں سے کیسے فیضیاب کرتے ہیں یہ دیکھنے کی چیز ہوگی۔ کل تو میں ملتان میں نواز گروپ کی خواتین کا بھنگڑا دیکھ کر حیران تھی کہ انقلاب شریفین کے بعد ان خواتین کا کیا ہوگا۔
عنیقہ: بدتمیز کا اعتراض کلچرل تضاد ہے۔ آپ اور میں شاید اسے برا نہ سمجھیں مگر بدتمیز و دیگر صاحبان کے کلچر میں یہ شاید بری عادت ہے۔ جو کہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ کسی کا نام لکھنا کیسے بری عادت بن جاتا ہے؟
محمودالحق؛ جمہوریت کی سمجھ آتے آتے ہی آئے گی۔ لوگ اپنے حامیوں کے جیتنے کی خوشی منائیں اس کا انہیں حق ہے مگر ذمے داری کے ساتھ خوشی منانا چاہئے۔
یاسر کہاں فرشتوں پر جا پہنچے ہو وہ کیا کہا ہے کسی بھلے آدمی نے کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اگر کوئی دھاندلی ہوئی ہے تو غلط ہوا ہے مگر وہاں سے شیخ رشید کا جیتنا کسی صورت ممکن نہ تھا۔ ویسے بھی عمران خان یا وہ جماعتیں جو انتخابی جنگ میں قطار کے آخر میں ہیں انہیں یہ الزام نہیں لگانا چاہئے ہاں شیخ رشید کہتا اچھا لگتا ہے کیوں کہ لیڈ بے شک ذیادہ ہے مگر اُس نے اچھے ووٹ لیئے ہیں۔
میں ذاتی طور پر اسلحہ رکھنے کو غلط نہیں سمجھتا اور میرا خیال ہے کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ہاں مگر اُس کا لائسنس ہونا چاہئے کیونکہ اس بات کی شرط ملکی قوانین میں ہے۔
کسی کو بولنا نہیں آتا تو کیا وہ اچھی سوچ کا مالک نہیں ہو سکتا؟ یا اُس کو سیاست کا حق نہیں ہے؟ ہم نے تو سیاست میں ایسے لوگ بھی بھگتے ہیں جو صرف بولتے ہیں نہ اچھا سوچتے ہےنہ کرتے، ہاں اگر شکیل اعوان اہل آدمی ہے تو یہ بات قابل اعتراض ہے۔
محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ کئی بلکہ اکثریت کیسوں میں پہلا نام پکارنا بدتمیزی کے ذمرے میں مانا جاتا ہے جیسے میرا نہیں خیال کہ کوئی اپنے والد، والدہ، تایا تائی یا اسے دیگر رشتوں یا ان جتنی عمر کے افراد یا رتبے کے احباب کو صرف اُن کے نام سے پکارے بلکہ اُس رشتے سے پکارے گا بلکہ اُس رشتے کے آخری میں جان یا جی کے لفظ احترام کی نیت سے کہے گا ورنہ معاملہ بدتمیری ہی ہو ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم عمروں و دوستوں میں پہلے لفظ سے پکارنےمیں کوئی حرج نہیں۔ ہمارا انگریزوں سے کوئی مقابلہ نہیں اُن میں ممکن ہیں بہت سی اچھائیاں ہوں مگر وہ تو اور بھی بہت کچھ ایسا کرتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی کرے تو آپ کو بھی اعتراض ہو گا۔
باقی کوئی امیر المومنین بنے یا پیر صاحب! سانوں کی۔
شعیب صاحب، مگر یہاں شکیل اعوان کو پہلے نام سے بلانے میں کیا برائ ہے وہ کسی کے چاچا ، ماما نہیں لگتے۔ اگر کوئ شخص آپ سے واضح طور پہ بڑا ہے اور آپکے سامنے ہے تو اخلاقا اسکے نام کے آگے صاحب لگا لیا جاتا ہے یعنی پہلے نام کے آگے۔ اور ہماری مہذب دنیا میں یہی رائج ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ پورا نام لیاجائے۔ باقی رشتہ داروں کے رشتے کا نام لیا جاتا ہے۔ اس میں نام کا پہلا یا آخری حصے کا کوئ سوال نہیں۔ اس وقت ہم رشتے داروں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پبلک فیگرز جیسے سیاستدان اور اداکار انکے لئیے یہ قطعی ضروری نہیں کہ عوام انکا احترام کرتے پھریں۔ یا انکی عمر کا حساب لگائیں۔ اور رشتے جوڑیں۔ اب بے نظیر آپ سے عمر میں کافی بڑی ہونگیں لیکن آپ اگر انکے متعلق کچھ لکھتے تو کیا بے نظیر صاحبہ یا بے نظیر باجی، یا بے نظیر آنٹی لکھتے۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ ہر کوئ انہیں بے نظیر کہتا تھا۔ یا اداکار ندیم کے متعلق لکھتے ہوئے انکل ندیم تو نہیں لکھیں گے۔ پیشہ ورانہ تقاضہ تو یہ ہے کہ ندیم ہی لکھا جائے۔ میں نے انگریزوں کی مثال اس لئیے دی ہے کہ ہم بہت ساری باتیں انگریزون سے لیتے ہیں اور آدھی لیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں ان سے کہیں زیادہ اچھی بات موجود ہوتی ہے مگر اسے ترک کر دیتے ہیں۔ جیسے ہم انگریزوں سے یہ چیز لے لیں کہ نام کا پہلا حصہ استعمال کرنے کے بجائے آخری حصہ یعنی خاندانی نام استعمال کریں۔ اب اگر آپکے چار بھائ ہیں تو سب کے سب مسٹر گھمن ہونگے۔ مجھے تو یہ طریقہ سخت نا پسند ہہے۔ یہاں مشرق میں لوگ اتنے ڈھونڈ کر نام رکھتے ہیں معنی دیکھتے ہیں، اعداد نکالتے ہیں۔ لیکن آپ مسٹر شعیب یا شعیب کہلوانے کے بجائے مسٹر گھمن کہلوائے جائیں۔ اور میں مسز فلاں۔خیر، بہت بحث ہو گئ اس پہ۔
ایک سائنسدان اگر بول نہیں سکتا تو کوئ بات نہیں لیکن اگر ایک سیلز مین نہیں بولے تو غلط ہو گا۔ ایک شاعر یا لکھاری کم بولے تو احسن ہے لیکن اگر ایک وکیل اور نفسیات داں کم بولے تو نہیں چلے گا۔ اگر ایک دانش ور کم بولے تو اچھا ہے لیکن ایک عوامی نمائندہ نہیں بولے گا تو اپنے لوگوں کی نمائندگی کیسے کریگا۔
اپنی حفاظت کے لئیےاسلحہ رکھنا آپکا حق ہے لیکن اسے ہوائ فائرنگ کے لئے استعمال کرنا اور اس سے اپنی مسرت اور طاقت کا اظہار کرنا کتنا قانونی اور اخلاقی طور پہ صحیح ہے یہ آپکو ہم سب سے بہتر طور پہ معلوم ہوگا۔
عنیقہ آپ شائد اردو اخبار کی بات کر رہی ہیں جہاں بیان کے بعد نام لکھا ہوتا ہے کہ بے نظیر لیکن ایسا صرف اس کے ساتھ ہی تھا باقی کے تو پورے نام ہوتے ہیں۔
مغل بادشاہ کو اکبر میں نے کہیں نہیں پڑھا ہمیشہ مغل بادشہ اکبر یا اکبر اعظم۔
مغرب میں بھی خالی لاسٹ نیم سے نہیں بلایا جاتا۔ مسٹر یا مس ساتھ لگایا جاتا ہے۔ یعنی جناب فلاں یا محترمہ فلاں
رہی بات اعتراض کی تو میں نعمان کو نعمان کہہ سکتا ہوں کیونکہ وہ میرا ہم عمر ہے لیکن میں اجمل انکل کو اجمل کہہ کر مخاطب نہیں کر سکتا۔ نعمان ان کو اجمل ہی کہتا ہے اور صاحب کا سابقہ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس سے پوچھوں کہ یعقوب کا کیا حال ہے؟ یا پنجاب کے دیہات میں جیسے پوچھا جاتا ہے کہ اوئے تیرے پیو دا کی حال اے۔ یہ بات شائد یہاں معیوب ہو مگر ہم عمروں سے بے تکلفی میں یا اپنے سے چھوٹوں سے ایسے ہی پوچھا جاتا ہے۔
میری طرف سے نعمان شکیل کو شکیلے یا اوئے شکیلیا وے کہہ کر پکار لے مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن مجھے آج کل نعمان کچھ جذباتی قسم کا جانبدار لگتا ہے جس سے ہاتھوں میں کھجلی ہو ہی جاتی ہے۔
نعمان بالکل آپ کے نزدیک شائد یہ قابل غور بات نہ ہو لہذا میرا خیال ہے مستقبل میں آپ چند ایسی باتوں کو ضرور درگزر کریں گے جو مجھ سے سرزد ہو سکتی ہیں۔
جب آپ دودھ کا دھلا لکھتے ہیں تو پتہ دیتے ہیں کہ آپ کی فیصلہ پر کیا رائے ہے۔ اور اسی کو جذباتیت کہتے ہیں جس سے آپ انکار کر دیتے ہیں۔
اسلحہ کی نمائش، غیر قانونی اسلحہ اور لائسنڈ اسلحہ تین مختلف چیزیں ہیں۔ ان میں فرق ملحوظ خاطر رکھیں۔
بدتمیز عنیقہ اور شعیب اوپر میرا تبصرہ دیکھیں یہ پہلے شائع ہونے سے رہ گیا تھا۔
بدتمیز: یعقوب کا حال اچھا ہے۔ اگر آپ کو میرے لکھے سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار آپ جس طرح مناسب سمجھیں کرسکتے ہیں۔ اظہار کا طریقہ کیا ہو اس کا انتخاب آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔ امید ہے حسب سابق آپ اس کے لئے اپنے ذاتی بلاگ کو ہی منتخب فرما کر مجھے زحمت سے بچائے رکھیں گے۔
شعیب میں بھی قانونی اسلحہ رکھنے کے حق میں ہوں لیکن جیسے عنیقہ نے کہا کہ بے تکے پن کے ساتھ اسقدر ہوائی فائرنگ، طاقت کا اظہار اور اسلحے کی نمائش کو کسی قسم کی شان سمجھنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔
عنیقہ : ملتان میں ڈالے گئے بھنگڑے ن لیگ کی خواتین کارکنان کا ذاتی فعل ہوگا میرا خیال ہے اس کا پارٹی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ویسے بھی پاکستان میں صرف دو ہی سیاسی جماعتوں کے کارکنان خود کو پارٹی پالیسی کے اندر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ایک جماعت اسلامی دوسری ایم کیو ایم باقی سب جماعتوں کے کارکنان کسی بھی قسم کی تربیت سے عاری ہوتے ہیں۔
بد تمیز اگر آپ نے کہیں اکبر لکھا ہوا نہیں دیکھا تو پھر ابھی آپکو بہت ساری کتابیں پڑھنی چاہئیں، مثلاً ڈاکٹر مبارک علی کی تاریخ پہ کتابیں اور شیخ اکرام کی تاریخ پہ کتابیں۔ شیخ اکرام کی کتابوں کے نام ہیں، حوض کوثر، موج کوثر اور رود کوثر۔ ڈاکٹر مبارک علی کی کافی ساری کتابیں ہیں۔اور انکی ایک کتاب کا تو ٹائٹل ہی ہے ‘اکبر کا ہندوستان’۔
میں تو یہ جانتی ہوں کہ میں اگر مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں کچھ لکھوں تو صرف مستنصر کہہ کر بھی کام چلا لونگی۔ اور اس پہ ان سمیت کسی کو کوئ اعتراض نہ ہوگا۔ میرا خیال ہے انکل کہنے پہ انہیں زیادہ اعتراض ہوگا۔
مغرب میں رسمی تعلقات یا رسمی تقریبات میں مسٹر یا مس استعمال کرتے ہیں۔ بے تکلفی ہو تو بل کلنٹن صرف بل ہوتا ہے۔ اخبار کے مضامین میں بھی مسٹر یا مس مخصوص اوقات میں ہی استعمال کیا جاتا ہے ورنہ نہیں ہوتا۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ رشتے داریاں بنانا کراچی کا ماحول بھی نہیں ہے۔ اور اس وجہ سے مجھے اپنے کئ کلاس فیلوز اور کولیگز کو جو مجھ سے عمر میں بیس پچیس سال بڑے ہوتےہیں صرف نام کے آگے صاحب یا صاحبہ لگا کر کام چلانا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں زیادہ ‘بد تمیز’ رہتے ہیں۔
اگر یہ کلچر تضاد ہے تو بھائی لگ بات ہے، ورنہ واقعی ہمارے یہاں یہ معیوب و بُرا مانا جاتا ہے۔ ہم ایسا اُس کے ساتھ کرتے ہیں جنہیں عزت نہ دینی ہو۔ سنا ہے دوسروں کو اُن کے کلچر کے حساب سے ڈیل کرنا چاہئے۔
اسلحہ کے بارے میں یہ بتا دوں مجھے تو ہوائی فائرنگ پر بھی کوئی اعتراض نہیں، میرا ارادہ ہے مستقبل قریب میں والد کے لائسنس پر اپنا نام بھی ڈلوانے کا اور ایک اچھی سے برازیل میڈ پسٹل لینے کا۔
کلچرل تضاد، کیا آپ ٹمبکٹو میں پیدا ہوئے تھے؟ آپ کی تبصرہ جاتی پالیسی تو کسی ایسے کلچرل تضاد سے متصادم نہیں۔ خیر مجحے یاد پڑتا ہے ایک دفعہ آپ نے اپنے گھر کی خواتین سے متعلق ایک تاریخی جملہ فرمایا تھا وہ یقین اسی تضاد کا نتیجہ تھا۔
چونکہ آپ پہلے سے ہی کافی پریشانیوں کی فکر میں مبتلا ہیں لہذا میں آپ کو اس فکر میں مبتلا نہیں ہونے دونگا کہ میں کیا کچھ لکھنے کو کونسی جگہ منتخب کرونگا۔
رہی بات کبھی الطاف حسین کو الطاف لکھ کر دیکھیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں آپ الطاف حسین یا شکیل اعوان دونوں کے روبرو کیا صرف ان کے سپورٹرز کے سامنے ہی کلچرل تضاد نامی تھیوری کو یکسر بھلا کر معاشرتی آداب و رواج سے مخاطب کرنے پر نہ مجبور ہوں تو کہئے گا۔
عنیقہ
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو
کسی دن سرچ کرنا میری پی ایچ ڈی کے بارے میں کیا رائے ہے۔
عنیقہ میری اسے سے پہلی والی پوسٹ میں بھی میں نے یہی لکھا تھا کہ کراچی کے لوگ ملک کے دوسرے علاقے کے لوگوں کو بدتمیز معلوم ہوتے ہیں۔ اب آپ نے بھی وہی بات لکھ دی۔
شعیب میں ہوائی فائرنگ کے حق میں نہیں ہوں۔ میرے خیال میں یہ اصراف بھی ہے اور گنجان آباد شہری علاقوں میں انتہائی نامناسب ہے۔ ہاں اگر کسی کو نشانہ بازی کی مشق کرنا ہے یا ٹریگر دبانے اور شاک کی سنسنی محسوس کرنی ہے تو اس کے لئے شوٹنگ رینج یا کسی ویران مقام پر جا کر شوق پورا کیا جاسکتا ہے۔
نعمان آپ کا قصور يہ ہے کہ آپ پنجابی نہيں ہيں، سو آپ کا ہر عمل گناہ-
مجھے یہ نہیں معلوم کہ اردو بلاگرز اتنے بیچارے کیوں ہیں کہ جب انہیں کچھ نہیں ملتا تو میری ڈگری گھسیٹ کر لے آتے ہیں۔ جی ہاں یہ اب میری ڈگری یافتہ ہونے اور آپکے ڈگری یافتہ نہ ہونے کا ہی فرق لگتا ہے کہ میرے اور ان تمام لوگوں کے درمیان ذہنی سطح کبھ برابر نہیں ہو سکتی حالانکہ میں اسے مٹانے کی بہت کوشش کرتی ہوں۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ میں نے اتنے عرصے جس چیز کے حصول پہ لگائے اسے اگر کوئ نہیں لگائے گا تو اسے کہاں سے تسلی ہوگی۔
مجھے آپ سب لوگوں پر جو میری ڈگری کو نشانہ بناتے ہیں انتہائ سے زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ کم علم رکھنا یا چیزیں نہ جاننا کوئ قابل فخر بات نہیں۔ اور اگر کوئ آپ سے مختلف جانتا ہے تو اس سے مستفید ہونے کے بجائے اسے اسکی علمیت کا طعنہ دینا یہ ایک آئیڈیئل پاکستانی ہونے اور اور محدود وسعت ذہن رکھنے کا مظاہرہ ہے۔ وہ تمام لوگ جو اپنے جذبات میں اس گراوٹ پہ اتر آتے ہیں کیا مجھے ان سے شرمندہ ہونا چاہئیے کہ جناب میں نے پی ایچ ڈی کر لی غلطی کی۔ اس سے بھی زیادہ غلطی یہ کی کہ آپ میں سے کچھ کو بتا دیا کہ یہ ہے میرا میدان اور یہ میں کرتی ہوں۔ صحیح کہا تھا کسی دانشور نے کہ جب معاشرہ خالی ہو جاتا ہے تو علم رکھنے والا کم علم کے سامنے شرمندہ ہوتا ہے۔ میں آپ تمام لوگوں سے یہ کہنا چاہوں گی کہ میری ڈگری کے خلاف بولنے کا حق وہی رکھتا ہے جو اس کے برابر ڈگری رکھتا ہے۔ باقی لوگوں کو اپنی زبان اس سلسلے میں خاموش رکھنی چاہئیے۔ نہ میں آپکو آپکی ڈگری کے حوالے دے رہی ہوں نہ آپ ایسا کرنے کا کوئ حق رکھتے ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ نے آج تک کہیں خالی اکبر نہیں پڑھا، میں نے آپکو ریفرنس دے دئیے۔ آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ نہ صرف یہ کہ آپ نے پڑھا نہیں ہے بلکہ آپکی اس بارے میں مزید جاننے کی خواہش بھی نہیں رکھتے اور جتنا آپ جان چکے ہیں وہ اب باقی کی عمر کے لئے کافی ہے۔ اگر میرے ریفرنس غلط ہیں تو آپ مجھے اس سلسلے میں مطلع کریں تاکہ مجھ سمیت تمام لوگ اپنی غلطی درست کریں۔ اور یہ کام کوئ نان میٹرک بھی کر سکتا ہے۔ یہ اطلاع ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی علم سے ہاتھ دھو کر فارغ نہیں ہوئے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ان کتابوں کو پڑھنا پسند کریں۔
ان سب لوگوں کے ان علم دشمن روئیے سے الگ، نومان سب سے پہلے یہ کہ میں نے آپکا پچھلا تبصرہ بعد میں پڑھا اور یہ محض اتفاق ہے کہ میں نے بھی کراچی والوں کو بد تمیز لکھ دیا۔ دوسرے، میں آپکی اس پوسٹ پہ جسکے تبصرے نجانے کس سمت چلے جارہے ہیں ایک بات پوچھنا چاہ رہی تھی کہ ایک بات جو میں سوچتی تھی کہ پنجاب میں نواز شریف کو طالبان کا حامی ہونے کی وجہ سے ووٹ ملے اب مجھے خود بھی صحیح نہیں لگتی کہ طالبان کے حامی تو عمران خان اور جماعت اسلامی بھی ہیں لیکن وہ تو وہاں ناکام ہو گئے۔ پھر نواز لیگ نے جو یہ کامیابی حاصل کی ہے اسکے پیچھے کیا عوامی نفسیات ہے۔ آخر پنجاب میں اب بھی ایک بڑا حلقہ انکے ساتھ کیوں ہے۔
"کسی دن سرچ کرنا میری پی ایچ ڈی کے بارے میں کیا رائے ہے۔”
ارے کس کو فکر ہے بھائی آپ امريکہ ميں اپنی پيزا ڈيليوريز جاري رکھيں-
جب پنجابيوں کی خرابياں سامنے آتی ہيں يہ غير متعلقہ باتيں يا دوسروں کی ذات پہ کيچڑ اچھالنا شروع کر ديتے ہيں- دوسروں کو صوبائی کارڈ کا طعنہ دينے والے خود ہر وقت پنجابی کارڈ بغير نام ليئے کھيلتے ہيں- جس بات پہ شکيل اعوان کو بھی اعتراض نہيں ہوگا کہ نام پورا ليا يا آدھا کہ وہ ابھی نوآموز ہے اس پہ شکيل اعوان کے مامے پورا تھيسس لکھ بيٹھے ہيں-
عنیقہ معذرت آپ کو میرے بلاگ پر ایسے تبصرے سننے کو ملے۔ امید ہے آپ اس قسم کے تبصرہ جات کو نظرانداز کرنا بھی جلد ہی سیکھ لیں گی۔
عنیقہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرونگا کہ طالبان کا حامی ہونے کی وجہ سے نواز شریف کو ووٹ ملے۔ میرا خیال ہے پنجاب کی عوام بھی ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کی طرح مقامی قیادت کو مرکز میں پہنچانا چاہتی ہے۔ اور مقامی قیادت میں جس کے مرکز اقتدار تک پہنچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اسے عوامی حمایت مل رہی ہے۔
پنجاب کی عوام کے ووٹ بینک میں کافی تقسیم ہے پیپلزپارٹی ابھی بھی پنجاب کی سیاست میں دوسرا سب سے بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے اس کے بعد ق لیگ کی باقیات ہیں۔ شیخ رشید نے بھی ٹھیک ٹھاک ووٹ لئے ہیں۔ جماعت اسلامی کو ووٹ تو نہیں ملتے وہاں سے مگر اخلاقی حمایت حاصل ہے اور عمران خان کو بھی سراہا جاتا ہے۔ لیکن بات صرف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی غیر پنجابی خاندان کی ملکیت ہے گرچہ اس کی تمام مرکزی قیادت پنجابی ہے۔ شیخ رشید یا ق لیگ اس پوزیشن میں نہیں کہ وفاق میں اکثریت پاسکیں۔ جماعت اسلامی یا عمران خان کو پنجاب کی عوام پسند تو کرتے ہیں مگر انہیں اقتدار کے ایوانوں میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ تو شاید نواز شریف کو اس امید پر ووٹ ملتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں ان کے مرکز میں حکومت بنانے کے امکانات مضبوط ہیں۔
انیقہ برا نہ منائیے بدتمیز صاحب عمر بنگش کی پوسٹ َََمیں ایک عدد انسان ہوں“ پر اپنا تعارف کرواچکے ہیں اور میں ان سے اور ان کے والدین سے ہمدردی کا اظہار بھی کرچکا ہوں آپ بھی وہی کیجیئے کہ ایسے لوگوں سے بس ہمدردی ہی کی جاسکتی ہے!:)
حسن آپ کو کیا پریشانی ہے کہ آپ یہ پیزا ڈیلیور کرنے سے کیوں محروم رہ گئے؟
عنیقہ۔ نہیں قصہ صرف اتنا نہیں کہ آپ کے پاس ایک ڈگری ہے۔ میرے خاندان میں یہ مخصوص ڈگری والے بھرے پڑے ہیں۔ لہذا میں اس ڈگری یافتہ کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ اور انتہائِ آسان الفاظ میں آپ لوگ پریکٹیکل نہیں ہوتے آپ لوگوں کے پاس علم ہوتا ہے لیکن صرف کتابی۔ آپ اچھی تقریر کر سکتے ہیں کتابیں نکال سکتے ہیں مگر بہت سے کام آپ لوگ درست نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کے پاس یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کام کو کیسے کرنا ہے مگر یہ ٰعلم ضرور ہوتا ہے کہ ایسا واقعہ پہلے کب پیش آیا یعنی بہت سے مواقع پر ایک عام انپڑھ آپ لوگوں سے بہتر طریقہ سے کسی مسئلہ کو حل کر سکتا ہے مگر آپ لوگ یہ ماننے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اب جیسے نعمان آپ سے تین دفعہ درخواست کر چکا ہے کہ اجی حضور صرف ہم سے ہمکلام ہوں باقی کو اگنور کر دیں۔ آپ کو کر دینا چاہئے تھا۔ میں پہلے بھِی دو تین جگہ پر آپ کو نوٹ کر چکا ہوں یہ چھڑ جانا آپ کو میرے نزدیک پنجاب کی ایک عام انپڑھ عورت کے برابر لا کھڑا کرتا ہے خیر ایک بدتمیز سے ایسی باتیں سن کر لوکاں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ باقی فیر صحیح
بد تمیز، میں آپکے خاندان سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہاں اپنے آپکو درست کرلیں۔ میں نے کبھی آپکو اپنا تعارف یہ کہہ کر نہیں کرایا کہ مجھ سے ملئیے یہ ہے میں اور یہ ہے میری ڈگری۔ میرے بلا گ پہ آپ میرے اس تعارف سے محروم ہیں۔ آپ میری نجی زندگی سے ایکدم نا واقف ہیں اور آپ قطعا نہیں جانتے کہ مجھے کس چیز کا علم ہے یا نہیں۔ تو یہاں پر بھی اپنے آپکو درست کر لیجئے کہ مجھے کیا پتہ ہے اور کیا نہیں۔ مبادا زندگی میں آپکو کبھی میرے بارے میں جاننے کا موقع ملے تو مجھ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی شرمندگی ہو۔
تمام بلاگرز کو یہ بات جان لینی چاہئیے کہ آپ کسی بھی شخص کے نظریات یا پیش کئیے گئے بیانات، یا معلومات سے اختلاف کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں مگر اس چیز کا حق نہیں رکھتے کہ آپ کسی بھی بلاگر کی ذاتی شکل و صورت، اسکے ذاتی خاندان نسل اور برادری یا اسکی تعلیم کو نشانہ بنائیں۔
ان پڑھ ہونے کا رویہ میں نہیں آپ پیش کر رہے ہیں۔ آپ میرے خیالات سے متفق نہیں تو کہہ دیں کہ نہیں میں تو ایسے ہی سوچتا ہوں یہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ آپکی ڈگری۔۔۔ بھائ جان یہ رویہ جو بھی شخص اختیار کرتا ہے چاہے وہ مجھ سے عمر میں جتنا بڑا ہو یا میرے برابر ہو وہ دراصل اپنی ذہنی نا پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔
مجھے آپکی اس چیز کو خاطر میں نہیں لانا چاہئیے اور میں لاتی بھی نہیں دراصل میں کسی فرد واحد کے لئیے تو لکھتی نہیں کہ اتنی معمولی باتوں کو دل سے لگا کر بیٹھ جاءوں لیکن آپ میں سے اکثر نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ آپ کی بات سے اختلاف کیا جائے تو آپ اس غیر پختہ اور غیر متوازن روئیے کا مظاہرہ کرتے ہی٘ں۔ بڑے ہو جائیں اور لڑنا سیکھیں۔ نظریات کیخلاف نظریات سے لڑا جاتا ہے۔ علم کے خلاف علم سے لڑا جاتا ہے جہالت سے نہیں۔ در حقیقت جہالت کے خلاف بھی علم سے ہی لڑا جاتا ہے۔ اب میں آپکے اس بیان پہ ہنس رہی ہوں کہ آپ لوگوں کے پاس ڈگری ہوتی ہے مگر یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔ دنیا آپکے ارد گرد کے لوگوں سے بھی پرے موجود ہے۔ لیکن آپ اپنی اتنی سی زندگی کو کل سمجھ کر گذاریں گے تو ایسا ہی لگے گا۔ کہ بس جناب آپ لوگ پریکٹیکل نہیں ہوتے۔
میں یہ کہتی ہوں تو اکثر بلاگرز کو بہت برا لگتا ہے مگر ذہنی پختگی کا عمر سے کوئ تعلق نہیں ہوتا۔ یہ پختگی سکندر اعظم اور محمد بن قاسم میں محض سترہ سال کی عمر میں موجود تھی۔ مگر یہاں ستر سال سے ستائیس سال تک کا شخص اس سے محروم نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے بھئ۔ مجھے معلوم ہے میرے اس تمام بیان سے آپ چند لمحوں کے اندر بڑے نہیں ہو جائیں گے، لیکن کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ حالانکہ آپ کہہ بھی رہے ہیں کہ ہم لوگ پریکٹیکل نہیں ہوتے بالخصوص وہ جن کے پاس وہ والی ڈگری ہو جو میرے پاس ہے۔
لیکن بہر حال میں اس چیز پہ یقین رکھتی ہوں کہ پانی جیسا نرم قطرہ بھی اگر ایک پتھر پہ پڑتا رہے تو اس میں سوراخ کردیتا ہے۔ یہ محض علم کی بات نہیں میں نے اپنی آنکھوں سے پتھر میں پانی سے سوراخ ہوتے دیکھا ہے۔
ایویں ہی لڑ رہے ہیں آپ لوگ۔