کل کراچی پریس کلب میں ڈاکٹر عواب علوی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ میں بھی کل اس پریس کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تھا مگر وہاں باہر موجود داڑھی والے خطرناک لوگوں کو دیکھ کر پلٹ آیا۔

تحریر: نعمان | موضوعات: کڑیاں

تبصرے:

  1. احتیاط برتیں کیونکہ غم و غصہ کا اظہار کا جو طریقہ ہمارے یہاں رائج ہے وہ نہایت خطرناک ہے۔

  2. وہاں باہر موجود داڑھی والے خطرناک لوگوں کو دیکھ کر پلٹ آیا۔
    ‪???????‬
    داڑھی میں کلاشنکوفیں لگی هوتی هیں کیا ؟؟
    یا ریڈیائی لہریں چھوڑتی ہے ؟
    یا که اپ نے کسی اور چیز کا نام داڑھی رکھا هوا ہے ؟

  3. آپ نے اچھا کیا جو کھسک گئے۔ ویسے عواب علوی صاحب کو علم ہونا چاہیے تھا کہ لوگ ناموس رسالت کیلیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
    یہ تو انہوں نے ایسے ہی کیا جیسے کوئی چرچ میں جا کر دہریت کی تبلیغ شروع کر دے یا ہائیڈل پارک میں طالبان کے حق میں بولنا شروع کر دے یا الطاف حسین کے سامنے ایم کیو ایم کيخلاف غلیظ زبان استعمال کرنا شروع کر دے اور سمجھے کہ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ یہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنے دل کی بات جہاں چاہے کہ سکے۔

  4. خاور صاحب، اگر ایسا ہوتا کہ خود کش حملہ آوروں میں سے کسی کی داڑھی نہ ہوتی، اگر ایسا ہوتا کہ جو لوگ ہر بات پہ قتل اور جہاد کے فتوے نہ جاری کر رہے ہوں تو داڑھی سے کسی کو کیا شکایت ہو۔ آپ بھول رہے ہیں اسی معاشرے میں داڑھی والے کوعزت کا وہ مرتبہ بھی حاصل تھا کہ اسے مولانا صاحب کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ لیکن اس وقت کا مولانا، غبار خاطر جیسی کتاب لکھتا تھا، نظیر اکبر آبادی اور غالب کے دیوان تدوین کرتا تھا اور ہر دوسرے شخص کو اسلام کے دائرے سے باہر نکالنے پہ کمر بستہ نہیں رہتا تھا۔ اکثر مولانا حکمت سے شغل کرتے تھے۔
    اگر آپ پاکستانی تاریخ کو دیکھیں تو یہ داڑھی والے ہی تھے جنہوں نے کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا۔ اور پھر آپ معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا داڑھی میں کلاشنکوف لگی ہوتی ہیں یا ریڈیائ لہریں چھوٹتی ہیں۔ یا آپ نے کسی اور چیز کا نام داڑھی رکھا ہوا ہے۔
    یہ کوئ بہت زیادہ پرانی خبر نہیں، چھ مئ کو طالبان نے مبینہ چوروں کو اسلامی سزا دیتے ہوئے تین افراد کے ہاتھ کاٹ دئیے اور انکے پنجے لیکر فرار ہو گئے،
    http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/news/pakistan/provinces/06-taliban-cut-off-hands-of-three-tribesmen-rs-04
    آج تک جتنی ویڈیوز اور خبریں اس سلسلے میں دیکھیں ان میں کبھی کوئ غیر داڑھی والا موجود نہیں تھا۔ غیر داڑھی والے بیٹھ کر صرف سوالات کرتے ہیں۔ کیا داڑھی میں کلاشنکوف لگی ہوتی ہیں؟

  5. میرا پاکستان صاحب، آپکے جملے میں ایک ٹیکنیکل خرابی ہے۔ جب ہم چیزوں کے درمیان مقابلہ کرواتے ہیں تو ترتیب اور خواص کو ایک جیسا رکھتے ہیں۔ ورنہ اس بیان کی اہمیت نہیں رہتی اور تحریر ایک معیار سے ہٹ جاتی ہے۔ جیسے آپ نے دو مثالوں میں جگہوں کا تذکرہ کیا چرچ اور پارک تو تیسری مثال میں بھی جگہہ ہی آنی چاہئیے تھی۔ اور اگر میں اسے صحیح کروں تو اسے یہ یوں ہونا چاہئِے کہ نائن زیرو پہ الطاف حسین کی برائ۔
    اب یہ سوال میں ہر اس شخص سے پوچھتی ہوں جو جب کبھی طالبان کا تذکرہ ہو ایم کیو ایم کو یاد کرتے ہیں۔ آپ طالبان کے کے مقابلے پہ انہیں کیوں لاتے ہیں؟ اس وقت بھی ناموس رسالت جیسے مسئلے پہ بات ہو رہی ہے لیکن کچھ لوگ اس میں بھی الطاف حسین کو اور ایم کیو ایم کو پکڑ لائے۔ کم از کم اس وقت تو انکے علاوہ کچھ اور سوچیں۔
    جواب ضرور دیجئے گا۔

  6. وہاں پریس کانفرنس میں عواب اور سبین نے جو غلطیاں کی ہیں، وہ میرے بلاگ پر جا کر ملاحظہ کیجیے۔ جب آپ صحافیوں کے "cross questions” کا جواب دینے کا سلیقہ نہ ہو، جب آپ خود ایک سوال پر جھنجھلا جائیں تو پھر دوسرے کو الزام نہیں دینا چاہیے۔ آپ نے اچھا کیا پریس کانفرنس سے واپس آ گئے لیکن مجھے عواب کا بہت زیادہ افسوس ہے۔

  7. عنیقہ صاحبہ
    تصیح کا شکریہ مگر آپ بھی تو صرف ایم کیو ایم کے نام پر چڑتی ہیں کسی اور کے نام پر نہیں۔ تو پھر آپ میں اور طالبان کے حمائتیوں میں کیا فرق ہوا۔

  8. اگر میں ایم کیو ایم کے نام پہ چڑتی تو آپکے جملے میں یہ اہم تبدیلی ہرگز نہ کرتی۔

  9. مانا کے پاکستان میں شوشل نیٹورکنگ کے حوالے سے ابھی بڑے پیمانے پر کام نہیں ہوا ہے اور نا ہی شاید کوئی سنجیدگی سے اس پر سوچنے پر غور کر رہا ہے پھر بھی جن چیزوں سے مسلم کمیونیٹی کے دلی جزبات کو تھیس پہنچتی ہو اور اس کی بندش کا بار بار وہ پر زور الفاظ میں مطالبہ بھی کر چکے ہوں پھر بھی یہ یہود و نصاریٰ دل کھول کر ایسے کام کریں بلکہ بڑھ چڑھ کر اس جان بوجھ کر تو پھر مسلم اقوام کا بھی حق ہے وہ ان کا بائیکاٹ کریں-
    اس موضوع پر تو 2 ہی رائے ہیں مسلمانوں کی یا تو تشدد پر آجائیں یا بائیکاٹ کر دیں تشدد سے مراد ان کی ان ویب کو ہیک کرنا جن سے ان کو نقصان ہو اور وہ پے در پے کو ہیک ہوتی رہیں یہاں تک کہ وہ خود مذاکرات کرنے پر مجبور نا ہو جائیں پھر یہ قانون بنایا جائے کہ ایسا ایونٹ اب نہ ہو
    یہ ایک بچکانہ سی سوچ ہے ایسا نہ تو کوئی کر سکتا ہے نا ہی ایسا ہو سکتا ہے
    اب رہی دوسری بات بائیکاٹ کی تو اس میں مسئلہ بس یہی ہے کے ہماری شوشل لائف ڈسٹرب ہوتی ہے
    اب کیا ہماری شوشل لائف اتنی ضروری ہے کے ہم اپنے مذہبی افکار مذہبی شخصیات کی توہین بھی برداشت کریں
    کم از کم ابھی بائیکاٹ کا آپشن مسلمان کے ہاتھ ہے اس کا استعمال کیوں نہ کریں؟
    کیا اس وقت کا انتظار کرین کہ جب یاہو گوگل اور ہاٹ میل بھی ایسے ایونٹ باقائدگی سے منعقد کریں؟
    ان کو علم ہو جانا چاہیئے فیس بک کو اور یوٹیوب کو اتنا نقصان اٹھانا پڑا ہے تو ان کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ اتنا بڑا نقصان برداشت کریں
    اب رہی بات مسلم افراد کی اپنے ہی مسلم بھائیوں پر حملے تشدد اور شدت پسندی کی
    کہا جاتا ہے جب لوہا گرم ہو تو اس کو جس سانچے میں ڈھال سکتے ہو ڈھال لو
    یہی بات وہ لوگ بھی جانتے ہین جو اپنی سیاست چمکانے میں ہر وقت مستعد رہتے ہیں
    کون معصوم ہے اور کون ریا کار کس کے دل میں اچھائی ہے اور کس کے من میں برائی یہ اللہ ہی جانے
    "ٹیلی پیتھی جاننے والا بھی اتنا آگے نہیں جا سکتا وہ بس اسی وقت کی سوچ کو پڑھ سکتا ہے”
    ایجنسیاں بھی ایسے احتجاج منعقد کرواتی ہیں اور پھر ہنگامے بھی وہی کرواتی ہین تا کہ ملک کا امن برباد ہو
    میں تمام احتجاج کی نہیں زیادہ تر احتجاج کی بات کر رہا ہوں
    اس بار سننے میں آیا ہے اندرون سندھ میں قادیانیوں نے بھی احتجاج منایا اور پھر توڑ پھوڑ‌ مچا دی تا کہ مسلم قوم بدنام ہو
    پھر بھی میں احتجاج اور بائیکاٹ کے حق میں ہوں
    ڈاکٹر عواب علوی صاحب کی سوچ اپنی جگہ ٹھیک رہی ہو گی پر ہم بھی غلط نہیں ہیں

Comments are closed.