کراچی کے لونڈے

میں ایم کیو ایم کی فتح پر منائے والے جشن میں ہونے والے ڈانسز کا بڑا فین ہوں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے یہ ویڈیوز اتنے اچھے لگتے ہیں۔ ایک تو یہ کافی تفریحی ہوتے ہیں دوسرے اس میں جو لڑکے ناچتے ہیں اگر آپ کراچی کے تمام ڈانس وڈیوز دیکھیں تو ایسا لگے گا جیسے کراچی کے لڑکوں کا ناچنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ جیس میں ہاتھ باری باری اٹھائے جاتے ہیں اور کولہے نکل کر ایک دائرے میں گھوما جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کراچی کے زیادہ تر لڑکے اتنے دبلے ہوتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ان کی پتلونیں کہاں ٹکی ہیں۔

اور واقعی کراچی کے یہ لونڈے ناک سے بولتے ہیں۔

تبصرے:

  1. کراچی میں کیا پٹان نہیں بستی؟یہ پٹان کا دل پسند ڈانس اے۔
    میوجک تو پٹانوں کی لگتی اے۔

  2. پختونوں کے روایتی ڈانس سے متاثر ہیں اس کی حرکات۔ موسیقی بھی پشتو لگ رہی ہے۔

  3. حيرت ہے کہ پٹھانوں کی موسيقی اور ناچ اپنا کر گولی بھی پٹھان کو مارتے ہيں

  4. عبداللہ، آپ نے بالکل صحیح کہا کہ یہ مکرانیوں کا انداز ہے۔ میں نے مکرانیوں کا ڈانس بھی دیکھا ہے اور میوزک بھی سنا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بالکل آسان ہے کہ یہ ان سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ شاید اسکی وجہ بلوچ قبائل کا یہاں مدتوں سے موجود ہونا ہو۔ حتی کہ شادیوں میں بھی اسی قسم کا ڈانس ہوتا ہے اور میں ہمیشہ اسکا مذاق اڑاتی ہوں کہ گانا چاہے انگریزی ہو یا انڈین، یہ لوگ اسے کتنی آسانی سے مکرانی ڈانس پہ لے آتے ہیں۔
    افتخار اجمل صاحب، آپ چونکہ اس عمر تک اپنے تعصب سے نجات نہیں پا سکے سو اب اسکی امید عبث ہے۔ لیکن کیا ایک ہی جماعت کا ریکارڈ اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کی آپکو غیبی نصیحت کی گئ ہے۔ اپنے یہ متعصب بیانات آپ ایسے لوگوں کے سامنے دیتے ہیں جنہوں نے پٹھانوں کی گولیاں بڑی مہارت سے چلتی دیکھی ہیں۔ حتی کہ کراچی میں لایا جانے والا اسلحہ بھی انکی مہربانی سے آتا ہے۔ ذرا کراچی میں اسلحہ اور پچھلے چالیس سالوں میں مارے جانے والے لوگوں کا ریکارڈ تلاش کر کے انکے جسموں میں گھسی گولیوں کی ساخت اور انکے چلانے والے کی قومیت معلوم کیجئیے گا تو آپ کو خاصہ صدمہ ہوگا۔ اگر آپکے اندر روشن ضمیریت موجود ہو تو۔ اور آپ محض کسی ایک قوم کے پیچھے اپنی توانائیاں لے کر نہ پڑ گئے ہوں تو۔
    عثمان، کراچی ایک صنعتی شہر ہے۔ یہاں پرکھوں سے ملی ہوئ گائے بھینسیں، مرغیاں، بطخیں نہ کسی کے پاس ہیں اور نہ رکھنے کی جگہ۔ لوئر مڈل کلاس میں گھر کے سب ہی لوگ محدود وسائل کے ساتھ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں۔ لڑکیوں کی اکثریت یا تو پڑھائ یا پھر جاب سے تعلق رکھتی ہے۔ صبح سے شام تک آلودگی کا مقابلہ کرنے، کئ بسیں بدلنے اور گھنٹوں سفر میں رہنے کے بعد انہیں ڈائیٹنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے وہ بھی اتنی ہی دبلی ہوتی ہیں۔

  5. ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی ایک کثیر القومی شہر ہے اور یہاں کوئی ایک قوم آباد نہیں۔ کھارادر سے میٹھادر میں ہھیلے لیاری میں آباد قدیم بلوچ مچھیرے ہوں، گوداب اور منگوپیر کے سندھی گوٹ۔ بنارس، میٹروول، سہراب گوٹھ اور قائد آباد میں مقیم پیٹھان ہوں، سرائکیوں اور ہزارے وال کا مزدور طبقہ یا پنجابی سب کی اپنی الگ پہچان ہے۔ ہندوستان سے آئے مہاجرین جن کی اکثریت اس شہر میں آباد ہے بھی کوئی مشترک ثقافتی ورثہ نہیں رکھتے۔ بہاری، گجراتی، حیدرابادی، راجھستانی، یوپی، دہلی، ببمئی، بنگلور اور سی پی والے سب اپنی الگ شناخت اور ثقافت رکھتے تھے لیکن کراچی میں ان مختلف قومیتوں کے باہمی اغلاط نے ثقافت کو بھی خلط ملط کردہا۔ اب یہاں کے کھانے، لباس، زبان، موسیقی اور رقص کچھ بھی خالص نہیں۔ اوپر سے ولائتی تہزیب اور مقامی اثرات نے بھی مہاجروں کی نئی جرنیشن کو ثقافتی یتیمی کا شکار کردیا ہے۔ اب یہ بیچارے الطاف بھائی کے اشاروں پر بچے ناچے بھی تو ناچے!

  6. ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی ایک کثیر القومی شہر ہے اور یہاں کوئی ایک قوم آباد نہیں۔ کھارادر سے میٹھادر میں ہھیلے لیاری میں آباد قدیم بلوچ مچھیرے ہوں، گوداب اور منگوپیر کے سندھی گوٹ۔ بنارس، میٹروول، سہراب گوٹھ اور قائد آباد میں مقیم پیٹھان ہوں، سرائکیوں اور ہزارے وال کا مزدور طبقہ یا پنجابی سب کی اپنی الگ پہچان ہے۔ ہندوستان سے آئے مہاجرین جن کی اکثریت اس شہر میں آباد ہے بھی کوئی مشترک ثقافتی ورثہ نہیں رکھتے۔ بہاری، گجراتی، حیدرابادی، راجھستانی، یوپی، دہلی، ببمئی، بنگلور اور سی پی والے سب اپنی الگ شناخت اور ثقافت رکھتے تھے لیکن کراچی میں ان مختلف قومیتوں کے باہمی اغلاط نے ثقافت کو بھی خلط ملط کردہا۔ اب یہاں کے کھانے، لباس، زبان، موسیقی اور رقص کچھ بھی خالص نہیں۔ اوپر سے ولائتی تہزیب اور مقامی اثرات نے بھی مہاجروں کی نئی جرنیشن کو ثقافتی یتیمی کا شکار کردیا ہے۔ اب یہ بیچارے الطاف بھائی کے اشاروں پر بچے ناچے بھی تو کیسے!

  7. یاسر، دوست، اور افتخار ۔ یہ ڈانس پشتو ڈانس نہیں نہ ہی یہ موسیقی پشتو ہے۔ موسیقی پیپلزپارٹی کے اس ترانے سے چرائی گئی ہے جو کہ بلوچی زبان میں ہے اور موسیقی بلوچی اور مکرانی ہے اور پورے صوبہ سندھ میں اسقدر مقبول ہے کہ یہ شادیوں تک میں بجایا جاتا ہے۔ رقص بھی کراچی کے قدیم باسیوں مکرانیوں کے رقص کی ایک عجیب اربنائزڈ شکل ہے جس میں بعض ہندی فلمی گانوں والے اسٹیپس بھی شامل کردئے جاتے ہیں۔

    باقی گولی والے حصے کا جواب عنیقہ دے دیا ہے۔

    کراچی کی لڑکیاں ملک کے باقی علاقوں کی خواتین کی نسبت زیادہ دبلی ہوتی ہیں۔ مگر یقین جانیں بہت سخت جان ہوتی ہیں۔

    کاشف میں اسے ثقافتی یتیمی نہیں کہوں گا بلکہ ثقافتی تغیر کہوں گا۔ میرے خیال میں یہ ثقافتی رنگارنگی بہت خوبصورت ہے۔ کراچی کے لوگوں کی زبان میں پورے ملک کے لوگوں کی زبان کے الفاظ شامل ہوتے ہیں۔ بہ لحاظ زبان، فکر و طرز زندگی بھی یہ شہر ایک متنوع ثقافتی لینڈ اسکیپ کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں کلچر خلط ملط نہیں ہوتے بلکہ اسے ثقافتی اختلاط کہا جاسکتا ہے جس سے ایک نیا کلچر جنم لیتا ہے جو پورے شہر کی پہچان ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں پیدا ہونے اور یہاں بڑے ہونے والے کسی پشتون گھرانے کے نوجوان جب اپنے گاؤں جاتے ہیں تو وہ وہاں کراچی والے کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ایسا ہی یہاں پیدا اور جوان ہونے والے پنجابیوں کے ساتھ ہے۔ وہاں ان کے انداز و اطوار میں واضح کراچی پن جھلکتا ہے اور یہ ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے خود ان نوجوانوں کے لئے بھی۔

  8. [کراچی ایک صنعتی شہر ہے۔ یہاں پرکھوں سے ملی ہوئ گائے بھینسیں، مرغیاں، بطخیں نہ کسی کے پاس ہیں اور نہ رکھنے کی جگہ۔ لوئر مڈل کلاس میں گھر کے سب ہی لوگ محدود وسائل کے ساتھ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں۔ لڑکیوں کی اکثریت یا تو پڑھائ یا پھر جاب سے تعلق رکھتی ہے۔ صبح سے شام تک آلودگی کا مقابلہ کرنے، کئ بسیں بدلنے اور گھنٹوں سفر میں رہنے کے بعد انہیں ڈائیٹنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے وہ بھی اتنی ہی دبلی ہوتی ہیں۔]

    انتہائی خوبصورت عکاسی ہے صورتحال کی۔ بہت موثر پیرا ئے میں بات بیان کی گئی ہے۔

  9. واقعی ہمارے جو رشتہ دار کراچی میں بستے ہیں۔انہیں صرف اردو آتی ھے۔ہم لوگ بھی انہیں کراچی والے کہتے ہیں۔
    افتخار صاحب کی کومنٹ پر مجھے بھی اعتراض تھا۔لیکن ان کی بزرگی کی وجہ سے کچھ کہنے کی ہمت نہ ھوئی۔
    ہم سب پاکستانی ہیں۔ہم پردیسیوں سے پوچھیں دیس کی محبت۔

  10. دشمناں تیر بجاں ———— ہلے
    نعمان کل ایک حدیث شریف پر مشتمل پوسٹ کرو
    دیکھیں بھلا پھر کیا تبصرے آتے ہیں!

  11. قدیر مشکوک کیوں بھائی؟

    یاسر: افتخار صاحب کی باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا کریں۔ بالکل ہم سب پاکستانی ہیں مگر دیکھیں ہم سب پاکستانی اپنے ہی ہموطنوں کے بارے میں کسقدر غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔

    رضوان ۔ میں ذرا مذہبی تحاریر سے دور ہی رہتا ہوں اس میں کنٹروورسیز کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔ اور آپ کو ہمارے ملک کے قانون اور فتوی انڈسٹری کا تو معلوم ہی ہے۔

  12. خواتین و حضرات!
    کراچی کی لڑکیوں کی بات میں نے مثبت پیرائے میں کہی تھی۔ اس بلاگستان میں میرا مقصد دوستیاں بڑھانا ہے۔ تلخیاں بڑھانا نہیں۔

Comments are closed.