شاکر:
عمر قریبا بائیس تئیس سال۔ رنگ سانولا، بال گھنے سیاہ، آسمانی رنگ کی شلوار قمیض، پیر میں باٹا کے چپل جن کے تلے گھسے ہوئے ہیں۔ ذہنی توازن اکثر غیرمتوازن رہتا ہے۔ راہ چلتوں کو اکثر ملتا ہے مگر کوئی اسے گمشدہ سمجھ کر نہیں لوٹاتا۔ چار و ناچار اسے رات کو خود ہی گھر لوٹنا پڑتا ہے۔
شاکر بھی ایک نمبر کی فلم ہے۔ ایک دن کیا ہوا، جمعے کے بعد اس کی دکان پر اس کا ایک دوست آیا۔ دوست نے جمعے کی خوشی میں کاٹن کا کرارا شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ ہنسی مذاق ہونے لگا اور مذاق مذاق میں شاکر نے ان کی قمیض پہ لگی جیب پکڑ کر کھینچی تو وہ ہاتھ میں آگئی۔ شاکر کا دوست بہت غصہ ہوا اور اس نے شاکر کو خوب باتیں سنائیں۔ شاکر بے چارے کے چہرے پر اللہ نے کچھ ایسے نقوش بنائے ہیں جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید وہ مسکرا رہا ہے۔ نتیجتا دوست صاحب اور بھی زیادہ غصہ میں کھولنے لگے۔ وہ تو جوابا شاکر کی قمیض پھاڑنا چاہ رہے تھے وہ تو بھلا ہو کچھ مشترکہ دوستوں کا کہ جنہوں نے عین موقعے پر پہنچ کر بیچ بچاؤ کرادیا اور شاکر کی پسندیدہ چیک کے خانوں والی شرٹ آنجہانی ہونے سے بچ گئی۔
بظاہر شاکر کافی حد تک نارمل نظر آتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس سے جب ملتے ہیں تو بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت مسکراتا رہتا ہے۔ کم بولتا ہے، سب کی سنتا ہے اور بس سر ہلاتا رہتا ہے۔
ہاں صحیح کہہ رہے ہو تم!
بالکل صحیح
درست
کیا بات ہے
اوہ
ہممم
آ
اور آخر میں جب کوئی تنگ آکر کہتا ہے بھائی تم کچھ بولتے کیوں نہیں تو کہتا ہے :
"تم بولو نا! میں سن رہا ہوں۔”
میرے ساتھ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ میں تو اچھے اچھوں کو بلوا دیتا ہوں۔ اور کبھی کبھی تو میں گونگوں سے بھی کافی دیر تک گفتگو کرلیتا ہوں پھر شاکر کیا چیز ہے۔ ایک دن سب اپنے اپنے دادا نانا کے قصے سنا رہے تھے۔ تو شاکر نے ہم پر یہ انکشاف کیا کہ اس کے دو دادا تھے۔ جس پر خوب قہقہہ پڑا تو اس نے وضاحت کی دوسرے دادا اس کے دادا کے بھائی تھے ان کی بیوی فوت ہوگئی تھی اور کوئی اولاد بھی نہ تھی اسلئیے وہ شاکر کے دادا کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ پھر شاکر نے بتایا کہ اس کے اصلی دادا کے بس دو ہی بیٹے تھے ایک اس کے والد اور ایک اس کے چاچا جو نئی کراچی میں رہتے ہیں۔ شاکر کے والد کے پورے ایک درجن بچے ہیں اور چاچا کے بھی سات آٹھ ہیں۔
ہم سب خوب ہنس رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ یار تم بارہ کے بارہ بیکار ہو تمہارا باپ دکان چلاتا ہے اور تم جوان لڑکے ایسے ہی سڑکیں ناپتے رہتے ہو۔ اس پر شاکر بولا میرے ابو بھی یہی کہتے ہیں اور کبھی غصے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ایسی اولاد سے تو اچھا میں کتے پال لیتا۔
ذرا سوچیں چاچا جمال اگر کبھی اپنے درجن بھر بچوں کے ساتھ جن میں سے کئی جوان ہیں کہیں نکلتے ہونگے تو کیسے شرمندہ ہوتے ہونگے۔ کوئی ٹیکسی والا بھی اس ریوڑ کو دیکھ کر ٹیکسی نہیں روکتا۔ ہاں اگر وہ درجن بھر کتوں کے ساتھ نکلتے تو الگ ہی بھرم پڑتا۔ کتا اگر ایک آدھ ساتھ ہو تو ٹہلانے والے کا پالتو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر نصف درجن سے زیادہ ہوں تو سربراہ مملکت کے سیکوریٹی آفیسرز۔ یہ کتے، چاچا جمال کا نام اگر پوری دنیا میں نہیں تو کم از کم محلے بھر میں تو روشن کرہی دیتے۔
میں نے شاکر کو مشورہ دیا کہ اپنے ابا سے کہو کہ اب پال لیں۔ تو شاکر بولو یار وہ تو پالنا چاہتے ہیں مگر ہم نہیں پالنے دیتے کہ گھر میں خواہ مخواہ مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور ہر لمحے ہماری عادتوں اور خصائل کا کتوں سے تقابل کیا جائے گا۔ میں نے کہا تو کیا ہوا ابھی بھی تو تمہارے ابا تم بھائیوں کو دوسروں کے لڑکوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ رہنے دو، اس معاملے میں تم بھائی بہت ڈھیٹ ہو۔ شاکر بولا یار کسی انسان کے بچے کو تو ہم اپنے لیول کا ہی نہیں سمجھتے نا اسليئے جب ابا ان سے مقابلہ کرتے ہیں تو یہ ہمارے لئیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مگر کتے نہیں بھائی کتوں سے ہم مقابلہ نہیں کرسکتے۔
میں نے کہا تم بھائیوں کو یہ ڈر ہوگا کہ ابا کہیں اپنی جائیداد کتوں کے نام نہ کرجائیں۔
نہیں یار ایسا نہیں ہوسکتا شرعی قانون کی رو سے کوئی باپ اپنی جائیداد میں سے کتوں کو کوئی حصہ نہیں دے سکتا چاہے اس کی اولاد کتنی ہی نااہل ہو اور چاہے کتے اسے کتنے ہی عزیز کیوں نہ ہوں۔ لیکن تمہیں پتہ ہے ہمارے گھر میں جگہ کی تنگی ہے ایک ایک کمرے میں تین تین چار چار افراد ساتھ سوتے ہیں اگر ابو نے کتے پال لئیے تو انہیں بھی ساتھ سلانا پڑے گا۔ دولت جائیداد کے لئیے تو بھائی بھائی کا خون کردیتا ہے اور کتے کا کیا بھروسہ کب کتے پن پر اتر آئے۔
خوب بهت خوب ـ يه هے نعمان بهائى كا رنـگ ـ
معاشرتى مسائل كو بيان كرنے كا اپ كا انداز تحرير خوب هے ـ
خاور
اچھي تحرير ہے مگر کتے پالنے پر ناجائز زور تحرير کي خوبصورتي کو کم کرنے کا جواز بنا ہے۔
لگتا ہے ابھی تک شاکر نے نہیں پڑھا۔