بلاگ اسپاٹ ہنوز ملک کی اکثر آئی ایس پیز پر بلاک ہے۔ حالانکہ ڈنمارک کا وہ اخبار جس نے کارٹون چھاپے تھے وہ بالکل بلاک نہیں ہے.اگر اعتراض کارٹونوں پر ہے تو jyllands-posten کیوں بلاک نہیں جو کہ پاکستان کی ہر آئی ایس پی سے دیکھا جاسکتا ہے مگر بلاگ اسپاٹ ہنوز بلاک ہے۔ پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کا مجموعی رویہ اس بارے میں بڑا مایوس کن ہے۔ یہ مایوس کن رویہ بلاگوں تک ہی محدود نہیں۔ آمر بڑے سے بڑا ظلم ڈھائیں یہ قوم چپ رہتی ہے۔ اور اگر کہیں کوئی کافر رسول پاک کی شان میں گستاخی کردے تو چھ سات مہینے کے مسلسل اشتعال دلانے کے عمل کے بعد بالآخر سڑکوں پر آجاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ناموس رسالت کو پاکستان کی سڑکوں پر بچانے کے دو تین ہفتے بعد یہی قوم پتنگیں اڑاتی ہے اور معصوم بچوں کے گلے کٹ جانے کے باوجود پتنگ بازی نہ صرف کرتی ہے بلکہ شراب و شباب شدید قلت کے سبب بلیک مارکیٹ ہونے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پتنگ اڑانا ان کا حق ہے اور حکومت انہیں خوشی منانے سے نہیں روک سکتی۔ خوب حق ہے!
غیرت اسلامی سے سرشار اور رسول پاک کی محبت میں چور چور یہ قوم، بلاگ اسپاٹ، توہین آمیز خاکوں کے شائع کرنے والے سائٹ بلاک ہونے پر حکومت کو سراہتی ہے اور پھر اسی حکومت اور اسی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خوشیاں مناتی ہے۔
ہمارے ملک میں تعلیم کا معیار اتنا گرگیا ہے اور لوگوں کو اپنے حقوق سے اتنی کم آگاہی ہے کہ اکثر لوگ آزادی اظہار رائے کو ڈائریکٹ توہین رسالت سمجھنے لگے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کی تنظیموں کو ریپ کروانے والی عورتوں کی انجمنیں اور خانگی صحت کے بارے میں آگاہی پھیلانے والوں کو فحاشی پھیلانے والے سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی بلاگر بیچارہ ان رویوں پر تنقید کردے تو وہ آزاد خیال (تقریبا لادین، دائرہ اسلام سے نئیرلی ڈسچارجڈ)۔ ہر کام میں انہیں سازشوں کی بو آتی ہے اور ہر لحظہ انہیں یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ دنیا اس انتہائی غریب، نیوکلیائی خطرناک، شدید انتہاپسند اور بے حد جاہل قوم کے خلاف میڈیا پر مہم چلارہی ہے (جیسے اگر دنیا مہم نہ چلاتی تو یہ اب تک امریکہ فتح کرچکے ہوتے)۔
لیکن خیر ایک طرح سے ٹھیک ہی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی اکثریت چوری شدہ ونڈوز پر، چیٹنگ اور فحش مواد دیکھنے کے علاوہ اور کرتی کیا ہے۔ چوری شدہ ونڈوز بھی وہ جس کا مالک بل گیٹس پاکستان میں چار پیسے کی سرمایہ کاری کا روادار نہیں اور ہندوستان میں اربوں کے پروجیکٹ لگا رہا ہے۔ کہتے ہیں بل گیٹس کی جنبش ابرو سے پاکستان میں ونڈوز کی پائریسی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مگر افسوس کہ بل کی ابرو میں کوئی جنبش نہیں ہوتی اور نہ اس کی اس ساکت ابرو میں کسی عاشق رسول کو کسی سازش کی بو آتی ہے۔ ذرا دو دن کے لئیے ایم ایس این بند کرکے دیکھیں، پورا جی ایچ کیو ہل جائے گا۔ قوم کو یہ احساس نہیں کہ اطلاعاتی معاشرے کے اس اہم ترین دور میں انہیں کس طرف گھسیٹا جارہا ہے۔ وہیں جہاں انہیں آزادی کے فورا بعد گھسیٹ لیا گیا تھا۔ گھٹن کی طرف، غلامی کی طرف اور جہالت کی طرف۔ آج بلاگ اسپاٹ بند ہوا ہے کل یاہو بند ہوگا پھر گوگل اور ویکیپیڈیا۔ اور ہم سب ایک ایسا سرچ انجن استعمال کیا کریں گے جس میں ہر نتیجے میں جنرل صاحب کی تصویر آئے گی اور دس میں سے نو نتیجے آیات قرآنی کے اردو انگریزی ترجموں پر مبنی ہونگے کہ مبادا کہیں ہمارے ایمان میں کوئی کمی نہ آجائے۔ جو رہی سہی کسر رہ جائیگی وہ ہم خود ہی کلام پاک کے ترجمے اور تفاسیر بلاگ کرکے پوری کرلیا کریں گے۔
بات سچ اور کھری ہے ۔۔۔ لیکن حکومت جو کر رہی ہے وہ تو کر رہی ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ۔۔ ہم نے کیا کیا ہے پاکستان کو اچھان کرنے کے لیہے
مجهے كوئى بتا رها تها كه بلاكنگ اتنى آسان نەيں جتنا ميں سمجه رهى هوں. بلاك كرنے كے لئے آئى پيز كو علاوه بەت كچه چيك كرنا هوتا هے اور انٹرنيٹ والوں كے لئے پورى ڈومين بلاك كرنا زياده آسان هے. حالانكه بات پورى طرح ميرى سمجه ميں نەيں آئي، ميں اس سوچ ميں ضرور پڑ گئى كه حكومت كو كچه بهے بلاك كرنے كى اجازت هونى چاهيے كه نەيں؟ اور پهر ميں پهنس گئ. دل تو كەتا هے كه نەيں، ليكن پهر خيال آتا هے كه ايك تو حكومت كدو هے اور دوسرا كه آخر كس كے اصول اپنائيں؟
اور اس كا واقعى كوئى جواب نەيں نظر آتا
قائله
(سورى ميرے كمپيوٹر سے آخرى دوچشمى نەيں نكلتى)
خلاصھ يھ کھ حکومت کارٹون سے نہيں بلکھ بلاگز پر موجود حکومت کے خلاف تنقيد سے خوف زدہ ہے۔
شاپر بھائی کم از کم میں تو اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔ اپنے کی بورڈ کی مدد سے اور عام زندگی میں اپنی زبان سے کے اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرتا رہوں۔
kyla
بالکل نهیں هونا چاہئیے یہ حکومت کا کام نہیں کہ وہ ہمیں بتائے کہ کس معلومات کا حصول ہمارے لئیے فائدہ مند ہے اور کونسا نقصان دہ۔ یہ نئی صورتحال نہیں حکمران ہر دور میں عوام کی معلومات تک رسائی سے خوفزدہ رہے ہیں۔ خصوصا آمر حکمران جنہیں عوام کی منشاء یا حمایت حاصل نہیں ہوتی۔
emullah
یقینا حکومت اظہار رائے کی بے پناہ آزادی اور بلاگز کی صورت میں کسی متوازی اطلاعاتی گروہ سے خوفزدہ ہے۔ کارٹونوں کا بہانہ کرکے پاکستانی بلاگرز کو بلاک نہیں کیا گیا کیونکہ ہم ابھی بھی بلاگ لکھ سکتے ہیں۔ بلکہ پاکستانی عوام کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بلاگ اسپاٹ پر موجود لاکھوں بلاگ آسانی سے نہ پڑھ سکیں۔