کراچی کے لوگ ادب اور علم دوست ہیں۔ کوچہ ثقافت، کتب میلے، مشاعرے ہمارے شہر کی ایک اور خوبی ہیں۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر لفظ مشاعرہ شہروں کے نام کے ساتھ تلاش کریں تو آپ کو تقریبا تمام خبریں کراچی ہی کی نظر آئیں گی۔ مزاحیہ، نعتیہ، مرثیہ خوانی، اور روایتی مشاعرے شہر میں سال بھر منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ کوچہ ثقافت میں ہر اتوار ایک مشاعرے کا اہتمام ہوتا ہے۔ لیکن ان سب مشاعروں میں ساکنان شہر قائد کے عالمی مشاعرے کی محفل سب سے بڑی اور ممتاز ہے جس میں ہر سال دنیا بھر سے شعرائے کرام تشریف لاتے ہیں اور اپنا کلام ہزاروں کے مجمعے کے آگے پیش کرتے ہیں۔
تئیس مارچ کی شب اس سلسلے کا سولہواں سالانہ مشاعرہ تھا جس میں کم و بیش پانچ سے دس ہزار سامعین نے شرکت کی۔ جن میں ایک بڑی تعداد طلباء و طالبات، گھریلو خواتین اور بچوں کی تھی۔
نیشنل اسٹیڈیم میں، کراچی کی روایتی ٹھنڈی ہواؤں اور برقی قمقموں کے درمیان، فرشی نشستوں پر اہل دل دس بجے ہی اچھی اچھی نشستیں گھیر بیٹھے تھے۔ مشاعرہ شروع ہوتے ہوتے رات کے گیارہ بج گئے۔ مگر پھر جو محفل جمی ہے تو صبح چھ بجے تک داد و تحسین کی صداؤں سے فضا گونجتی رہی۔ مشاعرہ کمیٹی کے منتظم اعلی اظہر عباس ہاشمی نے ہر سال کی طرح پچھلے سال سے بہتر انتظامات کئیے تھے۔ تمام رات بہترین نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا گیا۔ مشاعرے کی نظامت رضوان صدیقی نے کی، کرسی صدارت گورنر سندھ عشرت العباد نے سنبھالی۔ جی نہیں اس میں اقتدار کا تعلق نہیں، شہر قائد کی خوش نصیبی ہے کہ اسے ہمیشہ علم اور ادب دوست گورنر میسر آئے جیسے گورنر معین الدین حیدر، جناب حکیم محمد سعید، اور موجودہ گورنر عشرت العباد۔ اسلئیے گورنر سندھ کا صدارت کرنا بھی روایت ہوچلا ہے۔ دیگر مہمانان میں وزیر داخلہ سندھ رؤف صدیقی، وفاقی وزیر صفوان اللہ، ناظم اعلی مصطفی کمال اور آئی جی سندھ شامل تھے۔
مشاعرے میں جمیل الدین عالی، محترمہ کشور ناہید، اور جون ایلیا کی کمی محسوس کی گئی۔ جمیل الدین عالی صاحب علیل ہونے کے سبب اور محترمہ کشور ناہید ذاتی مصروفیات کی بنا پر شرکت نہ کرسکیں۔ جون ایلیا ہم سے جدا ہوچکے ہیں۔ ان کی کمی محسوس کرنے کی وجہ نوجوان شاعر قیصر وجدی بنے، جنہوں نے جون ایلیا کے لہجے میں اپنا کلام پیش کیا۔
مشاعرے میں پاکستان سے مشہور شعرائے کرام، راغب مراد آبادی، پروفیسر عنایت علی خان، انجم شادانی، شیخ الجامعہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، ذکیہ غزل، ثروت ظفر، اور عباس تابش کے کلام کو زیادہ سراہا گیا۔ گورنر سندھ اور وزیر داخلہ رؤف صدیقی نے بھی چند اشعار سنائے۔
بھارت سے آنے والے شعرائے کرام نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ جناب وسیم بریلوی نے اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے کہا کہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں آج باشعور سامعین کے سامنے اپنا کلام پیش کرنے جارہا ہوں۔ بھارت سے آنے والے دیگر شعراء میں طاہر فراز، شیاما سنگھ صبا، مدن موہن دانش اور مظفر رزمی شامل تھے۔
بھارت کے علاوہ آسٹریلیا، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارت اور کویت سے آئے ہوئے شعرائے کرام نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ تاہم جو بات سب سے زیادہ محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ سنایا گیا زیادہ تر کلام پچھلے مشاعروں کی نسبت بہت ہلکا تھا۔
تصویر میٹروبلاگنگ پر آفرین کی اس پوسٹ سے لی گئی ہے۔
dude! i really like ur writting style …. and ya karachi is the city of living people there is always something goin on ….