پسند کی شادی کرنے والی ایک لڑکی ارونا کو پنجاب پولیس حیدرآباد سے اپنی تحویل میں لے کر پنجاب لے گئی جہاں اسے اس کے والدین کے حوالے کردیا جائے گا۔ جیو ٹی وی پر ارونا کو ہاتھ جوڑ کر التجائیں کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں وہ میڈیا سے فریاد کررہی ہے کہ وہ اس کی مدد کریں۔ ارونا کا کہنا ہے کہ اس نے معظم سے چھ مہینے پہلے شادی کرلی تھی اور اس کے والدین نے ان میاں بیوی کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا ہے۔ ارونا نے فریاد کی کہ اس کی مدد کی جائے کیونکہ اس کے والدین اسے قتل کردینا چاہتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پنجاب پولیس کو ہدایت کی ہے کہ ارونا کو جلد از جلد عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ وفاقی حکومت نے بھی سندھ اور پنجاب حکومت سے واقعے کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
ارونا یا کوئی بھی دوسری عاقل اور بالغ لڑکی پاکستان میں اپنی پسند سے شادی نہیں کرسکتی؟ کیا لڑکیاں کوئی ریوڑ ہیں جنہیں ان کے مالکین سے کوئی جدا نہیں کرسکتا اور مالکین کا جس کھونٹے سے جی چاہے انہیں اسی کھونٹے سے باندھا جائے؟ ارونا ایک عاقل اور بالغ لڑکی ہے اسے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اتنا ہی اختیار ہونا چاہئیے جتنا کسی لڑکے کو ہے۔ ارونا کی پولیس حراست نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ خواتین کے ساتھ برتے جانیوالے امتیازی سلوک کی ایک اور تازہ مثال ہے۔ ایسے ہی امتیازی سلوک اور قوانین کی وجہ سے پاکستان بھر کی جیلوں میں دو سو چھیالیس خواتین قید ہیں۔ بی بی سی اردو پر شائع شدہ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ان خواتین کی عمریں تیرہ سے ستر سال تک ہیں۔ تیرہ اور ستر سال بذات خود ایک قابل غور اشاریہ ہے جو امتیازی اور غیرمساوی قوانین کا شکار ہونے والی خواتین کی درد بھری کہانی سنا رہا ہے۔ ان میں سے اکثر خواتین قید سے پہلے کھیتی باڑی، فیکٹری یا بیوٹی پارلرز میں ملازمت کرتی تھیں۔
قیدی خواتین میں سے بعض شوہر کی اجازت کے بغیر میکے چلی گئیں تھی اور کچھ نے مارپیٹ سے تنگ آکر شوہر سے خلع کا تقاضہ کیا تھا۔
کچھ خواتین نے زبردستی جنسی تعلقات سے اور کچھ نے بیروزگار شوہر کے کہنے پر جسم فروشی سے انکار کیا تھا۔
کچھ لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی اور کچھ نے زبردستی کی شادی سے انکارکیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق کچھ خواتین پر ذاتی دشمنی اور زمینی تنازع کی وجہ سے بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پندرہ خواتین زنا کے بعد حاملہ ہوگئیں جبکہ ایک عورت نے اسقاط حمل کروایا۔
اکسٹھ بچے ماؤں کے ساتھ رہتے ہیں جن کی عمر ایک ماہ سے بیس سال تک ہے۔
حدود آرڈیننس کے تحت قید کاٹنے والی خواتین کی اکثریت نا خواندہ ہے۔
زیادہ تر قیدی خواتین کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ریپ، گھریلو تشدد، کارو کاری، پاکستان میں خواتین کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے ہم اب کلچر، ثقافت یا روایات کے نام پر آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ پاکستان میں عورت کو پیدا ہوتے ہی گھر میں بھائیوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا نشانہ خود اس کے ماں باپ بناتے ہیں جس سے اس کے اندر اپنے حقوق کا ادراک ختم ہوجاتا ہے اور وہ اپنے خلاف برتے جانے والے سلوک کو مذہب، روایات اور ثقافت کے نام پر قبول کرنے لگتی ہے۔ لڑکیوں میں شرح خواندگی بے حد کم ہے اور دس سال سے کم عمر اسی فیصد لڑکیاں کم خوراکی کا شکار ہوتی ہیں۔
پاکستان کے مستقبل سے کس طرح کوئی امید رکھی جاسکتی ہے جب یہاں ملک کی پچاس فیصد آبادی خود اپنوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہے۔
Jab aisi khabrain or aisay waqiat nazar say guzartay hain to lagta hay kay hum yaqeenan janat main rah rahay thay hamaray nanihaal or dadihaal donon main bation ko beton kay baraber balkay baaz moqon per to ziada hi chaha jata hay jab hamaray cousons baron say shikwa kertay kay woh hum larkion ko ziada ahmiat kion daytay hain to unka jawab hota yeh to mahman hain tumhain to sari zindagi hamaray paas rahna hay, jin kay yahan sirf batian theen unhon nay kabhi biwion say is baat ko lay ker jhigray na kiaay or na unhain moride ilzaam theraya,meri nazar main bunyadi wajah taleem hay deen or dunia donon ki taleem,maan baap or olad sab ko apni hudood ka ilm ho or koi bhi dosray per ziadti na keray to masla paida hi naheen hota,Islami nuqtaay nigah say woh shadi shadi naheen hoti jis per larki or uska wali donon razi na hon,ager olaad ko shro say sahi or galat ki pahchaan kerwaai jati rahay to aagay jaker bohat say masaail paida naheen hotay,laikin aisa sirf wahi maan baap ker saktay hain jo khod deen ka sahi shaor rakhtay hoon,
نعمان صاحب ايک منٹ کيلۓ ذرا ہم اپنے گريبان ميں جھانک کر ديکھيں تو دن ميں تارے روشن ہو جائيں گے۔ يعني کيا ہم اور آپ ايک منٹ کيلۓ بھي يہ گوارہ کرسکيں گے کہ ہماري ماں يا بہن اس طرح گھر سے بھاگ جاۓ يا پھر ہماري بيوي کسي سے آنکھ مٹکا لڑا کر ہميں چھوڑ کر چلي جاۓ۔
بات آپ کي درست ہے کہ لڑکے اور لڑکي ميں فرق نہيں ہونا چاھيۓ مگر ہر چيز کي اپني اپني حدود ہوتي ہيں اور ہر کام حدود کے اندر رہ کر ہي اچھا لگتا ہے۔ ہوسکتا ہے کراچي اتنا ايڈوانس ہوگيا ہو کہ لڑکے لڑکي کا سرِ عام ملنا معيوب نہ ہو مگر مسلمانوں کے دوسرے علاقوں ميں ابھي شرم و حيا باقي ہے
میرا پاکستان صاحب ! سب سے زیادہ زیادتی کی واقعات پنجاب میں ہوتے ہیں اور پانجاپ میں ہی عورتوں کو ننگا پھیرایا جاتا ہے اگر عورت کو ننگا پھیرانا ہی غیرت ہے تو کراچی میں اس طرح کی غیرت نہیں ہے ۔۔۔ اسلام میں بالغ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے
yeh aap logon nay kia Karachi or Panjab shro kerdia hay,na to sara Panjab orton ko nanga phira raha hay or nahi Karachi ki sab larkian itni bay sharam hain,aap log aqleeti waqiat ko akseriat per kasay thop saktay hain her shaher or her ilaqay main her tarah kay log paay jatay hain,sab ko aik hi lathi say hankna koi achi baat naheen parhay likhay or bashaor logon ko is baat ko samajhna chahiay,
سب سے پہلی بات، آپ لے آئے نا سندھ اور پنجاب کو بیچ میں؟ لگتا ہے آپ کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ دوسری بہت سی جماعتیں بھی غلط ہیں مگر ایم کیو ایم تو ہے ہی غدار۔ جس کا مالک خود جلا وطن ہے اور پاکستان کی بہت فکر ظاہر کرتا ہے۔ ایم کیو ایم ماضی میں بھارت کع لیے کام کرتی پکڑی گئ ہے۔ اور براہ مہربانی صرف ضیا الحق کو مورد الزام مت ٹھرانا۔
آپ کے خیال میں پنجابی جاہل ہیں اور کراچی والے خصوصا محاجر پڑہے لکھے اور خواتین کع حقوق کے علمبردار ہیں۔ ۔۔ ہم پاکستانی ہیں، نا کے لسانی بنیادوں پر بکھرے ہوئے جاہل۔۔ ہم ایک پاکستان دیکھنا چاھتے ہیں۔
میں زاتی طور پر مائی پاکستان کو پڑہتا ہوں ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کے ہم ایک ہوں، نہ کے وہ ایک کیو ایم کے علمبردار ہیں۔ ۔۔۔۔
اسلام کی کیا بات کہی آپ نے، اسلام لڑکی کی خوشی جاننے کا حکم دیتا ہے، لڑکوں جیسے حقوق کا حکم دیتا ہے۔۔ لیکن ایک بات اسلام نے یہ بھی کہی ہے کے جوان لڑکیوں کو آزادی سے بازاروں میں گھومنع پھرنع سے روکو اور غیرون سے آنکھ مٹکا لگانے سے روکو۔۔۔
آپ نے کراچی کی روشن خیالی کی بات کہی۔۔۔ جی پنجاب میں لڑکیاں بہت کم ٹام بوائے ہیں۔ جو فٹنگ جینز کی بجائے شلوار سوٹ پھنتی ہیں۔۔ لڑکیوں کو تیراکی کے لباس میں گھومنے کی اجازت دے دی جائے؟ کچھ نا کہا جائے؟
اور نعمان صاحب خدارا سندھی پنجابی والی جہل باتوں سے نیکلیےے لوگوں کو پاکستانی بنانے میں مدد کیجیے۔۔
وسلام
Yasir aap nay khod hi yeh farz ker lia kay Nomaan ka taluq MQM say hay,dosri baat unhoon nay Punjabion ko jahil naheen kaha balkay majmoi tor per yeh baat kahi kay Pakistan main ortoon ka istahsaal hota hay (un kay kuch khayalaat say ikhtilaf rakhnay kay bawajood is baat main kafi sachai hay is baat ko aap bhi tasleem kerain gay) ,aap nay yeh bhi bataya kay mazi main MQM Bharat kay saath mil ker kaam kertay howay pekri gaai aisa kab howa is ka humain ilm naheen ager aap General knowledge kay liay humain bhi is baaray main tafseel bataain to inaayat hogi,
افشاں!
میں زرا جزباتی ہو گیا تھا۔۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ عورت کا اھٹصال ہوتا ہے یہ سچ ہے لیکن لوگ کیا چاہتے ہیں کے عورتوں کو ننگ دھڑنگ اور کسی کے ساتھ بھی بھاگنے دیا جائے؟ اگر ایسی روشن خیالی کراچی میں ہے تو باقی پاکستان کو معاف رکھا جائے۔۔ یہ مطلب تھا میرے کہنے کا۔
عورتوں کو بھی اپنی حدود سے باہر نہیں ہونا چاہی۔۔ یہ صرف مذہب نہیں معاشرہ بھی کہتا ہے۔۔
ایم کیو ایم نے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنا چاہا، میں جانتا ہون جنرل ضیا نے غلطیاں کیں ۔۔ ایم کیو ایم کو استعمال بھی کیا۔۔ لیکن ایم کیو ایم کراچی کو پاکستان سے الگ کرتع وقت پکری گئی تھی جس پر نام نہاد الطاف بھائی لندن فرار ہوا۔۔ جنرل ضیا غلط ہو گا پرواہ نہیں لیکن الطاف نے محاجرین کی جتنی عزت تھی، جو انہون نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں الطاف نے ان کا نام خراب کیا۔ لسانی بنیادوں پر آگ لگائی، کراچی روشنیوں کے شہر کو آگ کا شہر بنایا، محاجر، پنجابی جو سقوط ڈھکہ کے بعد اکٹھے ہوئے کو الگ کیا۔۔
کراچی پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی کیوںکہ محاجر بھی جانتے ہیں کے پاکستان ہی ان کی ضرورت ہے۔
امید ہے اب سمجھ گئی ہونگی
کراچی سے ایم کیو ایم کو رفع کیا جائے اور الطاف حسیں کو سر عام پھانسی دی جائے