ظلم جاری رہتا ہے

جمعہ 21 اپريل کو سندھ ہائی کورٹ کے حيدرآباد سرکٹ بنچ نے ازخود مواخذہ کرتے ہوئے ارونا اور اسکے خاوند معظّم کے خلاف سول جج حيدرآباد کا ديا ہوا پوليس ريمانڈ معطل کرديا ۔ ہائی کورٹ کا حکم بذريعہ ٹيليفون اور فيکس فيصلہ کے ايک گھينٹے کے اندر تمام متعلقہ آفيسران اور محکموں کو پہنچا ديا گيا ۔ مزيد جوڈيشيل مجسٹريٹ اوکاڑہ نے ارونا اور معظّم کے خلاف تمام کيس ختم کر کے اُن کی رہائی کا حُکم دے ديا ۔ اور وہ دونوں پوليس کی حفاظت ميں حيدرآباد کيلئے روانہ ہوگئے ۔

عدالتی کرپشن۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن حقائق کی روشنی میں ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا وہ حقائق اتنے سادہ ہیں کہ سول جج حیدرآباد کو صرف ارونا کے بیان، اس کے شوہر کے بیان، نکاح نامے اور گواہان کے بیانات کی ضرورت تھی۔ لیکن چونکہ پولیس نے حدود کے تحت رپورٹ درج کی تھی اسلئیے ملزمان کا فوری ریمانڈ سول جج کی مجبوری تھی۔

[…]ارونا نے جوڈيشيل مجسٹريٹ اوکاڑہ کو بتايا کہ دو صوبائی وزيروں نے اُس کے خلاف اُسکے والدين کی اعانت کی ۔[…]
مزید کرپشن

[…]ايک ريٹائرڈ جج عطا محمد کی چوبيس سالہ بيٹی۔[…] ثبوت کہ قانونی واقفیت رکھنے والے شخص نے جان بوجھ کر ایک قانون کے سقم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔

[…]جب اُس کی آنکھ کھُلی تو وہ سکھر ميں تھی ۔ پھر اُسے ساہيوال ليجايا گيا جہاں اُسے اپنے خاوند معظم سے عليحدگی پر مجبور کيا گيا اور تين دن تک مارا پيٹا گيا مگر وہ نہ مانی ۔ پھر اُسے اسلام آباد لے گئے جہاں چار ماہ تک اُس پر يہی دباء ڈالا جاتا رہا ۔ […] خواتین پر ہونے والا تشدد جس کا ذکر میری پچھلی پوسٹ میں تھا۔

یقینا کچھ لوگ خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور یوں مطلب براری کی کوشش کرتے ہیں اور چند اصحاب اس میں ایک آدھ آیت کا بھی تڑکا لگادیتے ہیں گویا ان کی خبروں کے قرآنی ثبوت ہوں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ مظالم ہمارے معاشرے میں تیزی سے رواج پارہے ہیں۔ کچھ لوگ آنکھیں بند کرلینے کو ترجیح دیتے ہیں کچھ آواز اٹھانے کو۔ ارونا کی کہانی صرف ارونا کی کہانی نہیں پاکستان میں لاکھوں عورتیں ہر سال جبر، طلم، اور تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ارونا کے حقائق ہماری معاشرتی منافقت سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں۔

پچھلی پوسٹ کے تبصرہ جات میں ایک صاحب مجھ سے پوچھتے ہیں۔ "کيا ہم اور آپ ايک منٹ کيلۓ بھي يہ گوارہ کرسکيں گے کہ ہماري ماں يا بہن اس طرح گھر سے بھاگ جاۓ يا پھر ہماري بيوي کسي سے آنکھ مٹکا لڑا کر ہميں چھوڑ کر چلي جاۓ۔”

میں آپ کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتا لیکن میرے ساتھ یہ صورتحال اسلئیے پیش نہیں آسکتی کیونکہ ہمارے یہاں شادی وغیرہ کے سلسلے میں لڑکی کی رائے اور پسند کو فوقیت نہیں دی جاتی بلکہ اسے حتمی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر میری بہن یا ماں گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو میں ان کی بہادری پر فخر کروں گا۔ اگر میری بیوی کسی غیر مرد سے آنکھ مٹکا لڑا کر مجھے چھوڑنا چاہے گی تو میں اسے بخوشی طلاق دے دونگا۔

تحریر: Noumaan | موضوعات: عمومی

تبصرے:

  1. Noman aik intiha ka jawab dosri intiha say dena koi aqalmandi naheen,aap aisa kah to saktay hain laikin is per amal naheen kersaktay kay meri maan ya bahan ghar chor ker bhag jaain to main un ki bahaduri per fakhr keron ga, kisi shareef mard kay liay is tarah ki baat sonchna bhi namumkin hay amal to dor ki baat hay,
    Masail hal kernay say hal hotay hain bahsa bahsi say naheen,

  2. "اگر میری بہن یا ماں گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو میں ان کی بہادری پر فخر کروں گا۔ ”
    کمال ہے!!!!!! روايت سے باغي ہونے ميں اور غلط اصول اپنانے ميں فرق ہے!!!! غلط راہ پر فخر نہیں کیا جاتا!!!!

  3. ہمارے سوال کرنے کا يہي مقصد تھا کہ کہنے اور کرنے ميں بڑا فرق ہوتا ہے اور يہ وہي جانتا ہے جس پر گزرتي ہے۔ ہميں يہي دعا کرني چاہيۓ کہ خدا ہميں اس طرح کے امتحان ميں کبھي نہ ڈالے۔

  4. جب تک آپ دودھ کی دکان اور اپنے نوکر کے حوالے سے لکھتے رہے آپ کی تحارير عمدہ لٹريچر کا حصہ تھيں ۔ ناجانے بعد میں آپ نے اُلٹی سيدھی کيوں شروع کر دی ۔کبھی کبھی ايسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے دماغ سے کام لينا چھوڑ ديا ہے ۔

Comments are closed.